کائنات میں کسی بھی سرمایہ دار کے کارخانہ میں مختلف مزاج کے مزدور محنت و مشقت کر کےشکم کا جہنم بجھانے کے جتن کرتے ہیں اور انہی مزدورں کی محنت سے مختلف اشیاء کے سانچے تیار ہوتے ہیں ،جن کی سرمایہ کاری سے کارخانہ کا مالک دن دگنی رات چگنی ترقی کی منازل طے کرتا ہے لیکن مالک اپنے مزدروں کا ہر موقع پر معاشی و سماجی استحصال کرتا ہے ۔اگر ہم اس کائنات کو عمیق مشاہدہ کی عینک سے دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دنیا بھی اللہ میاں کا کارخانہ ہے جہاں ربِ کائنات تمام نوعِ بشر کی تخلیق ایک جیسی کرتا ہے ۔لیکن شکل و صورت،مزاج سب کے ایک دوسرے سے مختلف بناتا ہے تاکہ ہم یہاں بسنے والے لوگوں میں فرق کر سکیں اور یہی رنگارنگی اور تنوع اس کارخانے کی خوب صورتی بھی ہے، جس کے سبب یہ کائنات رواں دواں ہے ۔کائنات کی اسی خوب صورتی کو مدنظر رکھتے ہوئےمحسن خان نے اپنے ناول کا عنوان ” اللہ میاں کا کارخانہ "رکھا ہے ۔ جہاں دنیاوی کارخانہ کے مالک کی طرح طاقتور طبقہ کمزور طبقات پر مختلف نوعیت کے ظلم و ستم کے پہاڑ گرا رہا ہے ۔
محسن خان نے اپنے ناول”اللہ میاں کا کارخانہ” میں دس سالہ بچے "جبران” کی نفسیات اور مشاہدات کے ذریعے انسانی زندگی کے تلخ حقائق،دنیا کی بےا ثباتی ، معاشرے کی باطنی خباثتوں کے ساتھ ساتھ انسان کے بدلتے رویوں پر اتنی فنکاری و مہارت سے طنزکیا ہے کہ مکمل مطالعہ کے بعد ناول عہدِ حاضر کی انسانی زندگی کا المیہ بن جاتا ہے ۔ناول نگار نے چند کرداروں کے ذریعے یہ واضح کرنے کی سعی کی ہے کہ اللہ میاں اس کارخانے میں ہر فرد سے اس کی قابلیت و استعداد کے مطابق مشقت کروا رہا ہے،جس کی اجرت آخرت میں ملے گئی ۔
مصنف نے ناول کے آغازمیں قصے کو حقیقی بنانے کے لیےیہ تحریر رقم کی ہے کہ "یہ سرگزشت گورکن کو کسی بچی کی قبر کھودتے وقت جزدان کے ساتھ ٹین بکس میں رکھی ہوئی ملی تھی ” جس میں چند تبدیلیوں کےبعد ناول کاپلاٹ تشکیل کیا گیا ہے۔ناول کے مطالعہ سے اند ازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی زندگی کے تجربات کےنچوڑ کو علامتی و استعاراتی بیانیے سے پاک سلیس اسلوب کے ذریعے انسانی زندگی کی مسرتوں اور غموں کی نشان دہی کی ہے ۔ ناول کے موضوع کے متعلق علی رفاد فتیحی رقم طراز ہیں:
"اللہ میاں کا کارخانہ ۔۔۔۔ایک ایسے معاشرے کی موت کا نوحہ ہے ،جو استعماری سازشوں کا شکار ہے ۔ان سازشوں کا نتیجہ آزادخیالی کا زوال اور بالاخر موت ہوتا ہے ۔یہ موت معاشرے کی اجتماعی بے حسی پر منتج ہوتی ہے ۔اس بے حسی کا ایک ثمر انتہا پسندی ہوتا ہے۔”(1)
ناول کا پلاٹ ” جبران ” کے گرد گھومتا ہے ، جو ناول میں واحد متکلم راوی بن کر اپنی سرگزشت سنا رہا ہے ۔”جبران ” کا جنم ایک مذہبی گھرانے میں ہوا ، جہاں وہ اپنی بہن ” نصرت ” والدہ” ناہید ” اور والد”ولید”کے ہمراہ اپنے بچپن کی بہاریں دیکھنے کے جتن میں رہا، لیکن اس کا والد اسے مدرسے کے حافظ( حافی جی) کےپاس چھوڑ آئے ،جوکہ مدرسے میں بچوں کو دینی تعلیم دینے پر معمور تھے، جبران کےوالداسےمذہبی تعلیم دلوا کر عالم بنانا چاہتا ہے لیکن وہ مذہبی پابندیوں کے سبب ردعمل کے طورپر ونیاوی خواہشات کی طرف مائل رہتا تھا ۔ وہ محلے کے دیگر بچوں کی طرح پتنگ اڑانے، ٹی وی دیکھنے وغیرہ کا شوقین تھا ۔ ان حرکات و سکنات کے سبب اپنی والدہ اور استاد حافی سے کئی مرتبہ مار بھی کھاتا ہے ۔اس کے باوجود وہ شوق پورے کرنے سے باز نہیں آتا ۔جبران کی زندگی کے تمام مراحل کو پڑھ کر واضح ہوتا ہے کہ ناول نگار بچوں کی نفسیات کا عمیق مشاہدہ رکھتا ہے۔جس کی مثال ناول کے آغاز میں ہی نظر آ جاتی ہے ، چوں کہ ہمارے معاشرےمیں دینی مدارس میں تعلیم حا صل کرنے والوں کو جمعہ کے روز چھٹی ہوتی ہے اس لیے ایک طرف جمعہ کے دن جبران کی خوشی دیدنی ہوتی ہے تو دوسری طرف اسے جمعہ کادن اچھا نہیں لگتا ہے کیوں کہ جاڑوں میں جمعہ کے روز نہانا پڑتا تھا ۔ اسی متعلق جبران کے چند معصومانہ سوالات قارئین کی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں :
” اللہ میاں کو تویہ بات معلوم ہی ہو گی کہ جاڑوں کے دنوں میں بچوں کو نہاتے وقت کتنی سردی لگتی ہے تو پھر انہوں نے جمعہ کا دن سردیو ں میں کیوں رکھا ۔وہ تو اسے گرمیوں میں بھی رکھ سکتے ہیں ۔ اگر یہ نہیں کرنا تھا تو جمعہ کے دن گرمی ہی کر دیا کریں۔” (2)
جبران کا خدا پر اعتماد ملاحظہ کیجیے :
"اس دن جب میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے گھر کا دروازہ تیز آواز کے ساتھ کھلا اور اللہ میاں ہمارے گھر میں داخل ہوئے ‘ میں نے انہیں بتایا کہ میری کالی مرغی کو جسے آپ نے بنایا تھا بلی لے کر چلی گئی ۔ اس لیے ہم خوش نہیں ہیں ۔ انہوں نے مسکرا کر میری ۔۔۔۔کر دیکھا اور کہا ۔ میں تمہاری اس کالی مرغی کو پھر سے بنا دیتا ہوں "(3)
یہ اقتباسات بچوں کی نفسیات اور ان کے ذہن میں اٹھنےوالے سوالات کے غمازہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے بچوں کے باطن میں جستجو کا مادہ بڑوں کی نسبت زیادہ پیدا کیا ہے ۔ جیسا کہ جبران اپنی والدہ سے صبح سویرے اٹھ کر مدرسے جانے اور جاڑوں میں جمعہ کے روز نہانے کے متعلق سوالات کرتا ہے ،جس کے جواب میں وہ کہتی ہے کہ اللہ تم لوگوں کو اس کا اجر دے گا۔ (یہ بھی پڑھیں اللہ میاں کا کارخانہ‘‘کے اوزار (فنی رسومیات کے حوالے سے)- محمد حنیف خان)
اگر غور کیا جائے تو ناول نگارنے ناول کے مروجہ اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہانی کے درمیان مختلف اقوال کو استعمال کر کے معنوی سطح پر بیانیے کو یوں آگے بڑھا رہا ہے کہ قاری جبران کی زندگی کے ساتھ جذباتی وابستگی محسوس کرنے کے علاوہ اس کائنات کی حقیقتوں سے بھی آشنا ہوتا ہے اور ناول کی تفہیم کے کئی در کھلتے ہیں ۔ ان اقوال کی معنی خیزی اتنی پائیدار ہے کہ ہر قول پر الگ سے ایک مضمون لکھا جا سکتا ہے ۔ مثلا ناول کے آغاز میں ہی ایک جملہ ” اللہ میاں نے مرغی کے ساتھ بلی کیوں بنائی ہے ” نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا کیونکہ تخلیقی سطح پر اس جملے کی کئی پرتیں کھلتی نظر آئیں ۔یہ جملہ ظاہری طور پر تو ایک بچے کے باطن میں جستجو کےعنصر کو عیاں کرتا ہے لیکن اگر اس کےباطن میں جھانکیں تو جملے کے سیاق سے قاری زندگی کے کئی پہلوؤں سے آشنا ہوتا ہے ۔ اس جملے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ’ جبران’ کی مرغی صحن میں دانہ چگ رہی تھی کہ یک بارگی دیوار پر بیٹھی بلی جھپٹ کر مرغی کو دبوچ لیتی ہے تو ‘ جبران اور نصرت غم زدہ ہوتے ہیں اورآپس میں مکالمہ کرتے ہیں کہ اللہ میاں نے مرغی بنائی تھی تو بلی کیوں بنائی ”
اگر ہم جملے کو ناول کے موضوع کے ساتھ منسلک کر کے پرکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بلی اس دنیا میں طاقت ور اور سرمایہ دار کی علامت ہے جبکہ مرغی ایک بے کس اور غریب کی علامت ہے ،جس کو صرف اپنی دال روٹی سے مطلب ہے لیکن طاقت ور طبقہ جب چاہتا ہے اس کو مختلف حوالوں سے دبوچ لیتا ہے ۔یہی اس معاشرے کا المیہ ہے ۔’ چوں کہ جبران ایک غریب گھرانے کا بچہ ہے جو زندگی میں آنے والے مصائب کو نزدیک کی عینک سے دیکھ رہا ہے اس لیے اس طرح کے واقعات پر سوالات اٹھاتا ہے ۔ جبران نے والدہ سے یہی سنا کہ کائنات میں سب جانداروں کو برابر پیدا کیا ہے اور یہ بات اس کے ذہن میں نقش تھی اسی وجہ سے وہ سوال کو کئی بار پوچھتا ہے تو یہ جملہ بیانیے میں اس طرح پیوست ہوتا ہے کہ ناول میں سسپنس بڑھاتا چلا جاتا ہے ۔چند اقوال ملاحظہ کیجیے:
1 ۔ ” دور سے دیکھو گے تو چیزیں ویسی دکھائی نہیں دیں گی جیسی قریب سے دکھائی دیتی ہیں”
2 ۔ ” ہماری پتنگیں اسی رخ پر اڑتی ہیں ،جس رخ کی ہوا ہوتی ہے ”
3۔ "یہ دنیا اک تماشا گاہ ہے ۔ یہاں کوئی دکھا رہا ہےتو کوئی تماشا دیکھ رہا ہے ”
4 ۔” رسی پر چلنے کا تماشا دکھاتے وقت تماشائیوں کو دیکھو گے تو گر جاؤ گے ”
5 ۔ "چیزیں ویسی ہی دکھائی دیتی ہیں جیسی تم انہیں دیکھنا چاہتے ہو ”
6 ۔” ماں کے مرنے کاغم کیا ہوتا ہے ، یہ وہی جان سکتا ہے ،جس کی ماں مر گئی ہو ”
7 ۔ "تم جہاں سے بھاگتے ہو ، وقت اکثر تم کو وہیں پہنچا دیتا ہے ”
8 ۔ "قبر کے کتبے پر اچھی اچھی باتیں لکھ دینے سے مردے کے اعمال اچھے نہیں ہو جاتے ”
9 ۔ "اگر بکری بھوکی ہے تو چمکارنے سے اس کا بھلا نہیں ہو گا ”
10 ۔”ہم جتنی تیزی سے دنیا کے پیچھے دوڑتے ہیں ، دینا اتنی ہی تیزی سے پیچھے چھوٹتی جاتی ہے ۔
ان اقوال کے مطالعے سے اندازہ لگا جا سکتا ہے کہ یہ جہاں قاری کے لیے متن کی تفہیم میں مدد گار ثابت ہو رہے ہیں وہیں انسان ، بالخصوص ہندو ستانی مسلمانوں کے لیے دنیاوی حقیقتوں سے شناسا ہونے میں کار آمد ثابت ہوتے ہیں ۔ اقوال کے متون کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ سلیس اسلوب ہونے کے باوجود اپنے اندر جہانِ معنی رکھتے ہیں علاوہ ازیں یہ اقوال ناول میں کہیں بھی بھرتی کے معلوم نہیں ہوتے ہیں ۔ (یہ بھی پڑھیں ‘‘اللہ میاں کا کارخانہ ’’ یا تہذیب کے برزخ میں متحرک روحیں- خوشتر زرّیں )
دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان بستے ہیں وہاں دینی تعلیم کے حصول کے لیے مدارس کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے ،جن میں مسلمان بچوں کو قرآن و حدیث، فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ہندوستان میں مدارس کے قیام کا آغاز غوری عہد میں ہوا ،بعد ازاں اکبر او اورنگزیب نے دینی تعلیم کے لیے مختلف مدارس قائم کیے ۔اس عہد کے مشہور مدارس میں ندوۃ العلما، مظاہر العلوم اور دار الحدیث رحمانیہ دہلی ہیں ۔ مصنف نے عصر حاضر کی سائنسی ترقی کے دور میں جہاں دنیاوی تعلیم کا حصول ضروری قرار دیا ہے وہیں ہرایک مسلمان بچوں کے لیے دینی تعلیم کے حصول کے لیے خواہاں نظر آتے ہیں لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ مدرسوں میں اسا تذہ کا بچوں کے ساتھ سلوک اور مدرسوں میں ڈر اور خوف کی فضا پر اس لیے طنز بھی کرتے ہیں کیونکہ اس کے سبب خوف میں مبتلا ہو کر مدرسے سے بھا گنے کے ہربے تلاش کرتے رہتے ہیں ۔
” جبران ” کے والد صلوۃ و صوم کے پابند دین دار انسان تھے ،جو اس ترقی یافتہ دور میں بچوں کو صرف دینی تعلیم دلوانے کے قائل ہیں اس لئے وہ اپنے بچوں جبران اور نصرت کو حافی جی کے مدرسے میں داخل کروا دیتے ہیں ، جو روزانہ صبح سویرے اٹھ کر سپارے اور راحلکے ساتھ مدرسے پہنچتے ہیں جہاں حافی ایک طرف اللہ کے دین اور آخرت کے فضائل پر وعظ کرتے ہیں تو دوسری طرف نسرین اور جبران سے اپنی خدمت کرواتے اور ساتھ یہ بھی کہتے کہ اپنے گھروں میں بتایا تو عبرت کی چھڑی سے اس کی خبر لی جائے گئی ،یہ قانونی طور پر ایک غلط رویہ ہے ۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے :
"تم لوگ سر اور پیر دبانے کی بات اپنے گھروں میں نہ بتانا ۔ یہ بھی کہا اگر کسی نے بتایا تو عبرت کی چھڑی سے اس کی خبر لی جائے گئی "(4)
مدرسے میں بھی نسرین اور جبران خدا کے متعلق حافی سے معصومانہ سوالات کرتے ہیں جن کا جواب حافی قرآن و حدیث کی روشنی میں دیتے ہیں ،جن کا نچوڑ یہ ہوتا تھا کہ مسلمان کو یہاں ہر کام کا اجر آخرت میں ملے گا کیونکہ اس کائنات میں انسان فلسفہ جبر کا مقید ہے ،جہاں اس کا ہر کام کا انحصار اللہ کی مرضی پر ہے ۔ وہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دے کر آزماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے غربت و مفلسی کی کیفیت سے دوچار کر کے آزماتا ہے یعنی اللہ انسان کو جس حال میں رکھے اس کو صبر شکر کرنا چاہیے ۔
متن کے بعض حصوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناول نگار نے موجودہ معاشرے کا ژرف نگاہی سے مشاہدہ کیا ہے ۔ مصنف کے نزدیک یہ دنیا ایک سرکس نما ہے ،جس میں ہر کوئی اپنا تماشا دیکھا رہا ہے ،ہر شخص اپنی مفاد پرستی کے لیے تماشا بنا ہوا ہے ۔ جبران جب مدرسے سے ناغہ کر کے احمد کے ہمراہ نٹ کا تماشا دیکھنے چلا جاتا ہے تو ایک طرف بچوں کے حوالے سے فطری عمل ہے لیکن جب وہ مدرسے پہنچتا ہے تو حافی اس کو بندر سے تشبیہ دیتا ہے اور آخرت کے متعلق بلیغ گفتگو کرتا ہے ۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے :
” یہ دنیا ہے ۔ یہاں کوئی ہوا میں اڑ رہا ہے ، کوئی پانی پر چل رہا ہے ، کوئی رسی پر چل رہا ہے ۔ یہ شعبدے بازیاں یہیں دھری رہ جائیں گی ۔جب اللہ کے گھر جاؤ گے اور پل صراط پر چلنا پڑے تب حقیقت معلوم ہو گی ۔۔۔۔پل صراط دوزخ کے دونوں کناروں پر رکھا جائے ۔۔۔اس پر بڑے خطر ناک قسم کے کانٹے ہوں اور لوگوں کو اس پر سے گزر نا پڑے گا ،جن لوگوں کے اعمال اچھے ہوں گے وہ اس پر سے گزر کر جنت میں چلے جائیں گے اور جن کے حالات خراب ہوں گے ، وہ کٹ کر دوزخ میں گر جائیں گے ۔”(5)
اس اقتباس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حافظ صاحب ایسے بچوں سے مخاطب ہیں ،جن کو ابھی دنیا کے صحیح مفاہیم بھی معلوم نہیں نہ ہی وہ خدا ،کائنات اور انسان کے تصور سے آگاہی رکھتے ہیں ۔ وہ بچے چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کر کے اپنے بچپن کو یاد گار بناتے ہیں ۔ لیکن حافظ صاحب ان کو قیامت کے ہولناک مناظر کی عکس بندی کر کے ایک ایسے خوف میں مبتلا کر رہے ہیں ،جس کے زیر اثر ساری زندگی رہیں گے ۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی امریکہ میں نائن الیون کے واقعہ نے امت مسلمہ کو نظریاتی سطح پر تقسیم کر دہا تھا ،جس کے سبب وہ متنوع مسائل کا شکار ہو گے اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جنگ عظیم دوم کے بعد فرنگیوں نے متعدد مسلمان ممالک کا اقتدار اس طبقے کے حوالے کر دیا جو مغربی تہذیب کے پر وردہ اور پرستار تھے ۔ انھوں نے اپنے ملکوں میں قرآن وسنت کے نفاذ کے بجائے نو آبادیاتی قوانین کو ہی لاگو کر دیا ،جس کےاثرات آنے والے نسلوں پر بھی پڑے ۔ (یہ بھی پڑھیں محسن خان کا ناول’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ ایک مطالعہ – ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی )
نائن الیون کے سانحے کے بعد مغربی لابی نے اسلام کو مزید کمزور کرنے کے لیے سوشل میڈیا،انٹر نیٹ کے ذریعے نوجوان نسل کی اس طرح ذہن سازی کی کہ وہ مغرب کی اندھا دھند تقلید کرنےلگی ، جس کے بعد مسلمان علما اکثر اپنی تقاریر میں امریکہ اور ففتھ وار جنریشن کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں ۔
چونکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جہاں دوسری بڑی اقلیتی آبادی مسلمانوں کی ہے ۔ یہاں پر بھی مسلمان طبقہ مذہبی بنیادوں پر انتشار کا شکار ہے ۔متن میں ایک آدمی کے واعظ سے واضح ہوتا ہے کہ ناول نگار نے فرقوں سے بالاتر ہو کر بحیثیت مسلمان اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے کہ مسلمانوں کو آج مسلکوں اور فرقوں میں تقسیم ہونے کے بجائے متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے :
"آج امریکہ ، اسرئیل ، چین اور دوسری بڑی طاقتیں مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں ۔ ہمیں کمزور کرنے اور نقصان پہچانے کے لیے نئے نئے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں اور ہم مسلکوں ، فرقوں، ذات پات اور برادریوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی تدبیریں کر رہے ہیں ۔”(6)
مصنف اس بات کے قائل لگتے ہیں کہ موجودہ دور میں کسی بھی انسان کے ظاہری عمل سے اس کو پرکھنا ایک بڑی غلطی ثابت ہو سکتی ہے مثلا اگر اللہ نے دین کی تبلیغ کا حکم دیا ہے تو اس سے قبل حقوق العباد پورا کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ جبران کا والد ” ولید ” جو ایک دین دار ،پانچ وقت کا نمازی ہے لیکن اپنے بھائی سے اس بنیاد پر قطع تعلق کرتا ہے کہ وہ دنیاوی خرافات میں پڑا ہوا ہے ۔ (یہ بھی پڑھیں ناول” اللہ میاں کا کارخانہ” ایک مطالعہ- ہما خان علیگ)
جبران ایک متوسط گھرانے میں جنم لینے والا بچہ ہے لیکن وہ زندگی کا بھرپور لطف اٹھانا چاہتا ہے ۔اس کو پتنگ اڑانے کا بہت شوق تھا جس کے لیے وہ ڈور کا تکلا جمع کرنے کے جتن کرتا رہتا تھا ، علاوہ ازیں ٹی وی دیکھنا ، موبائل پر گیم کھیلنا، مدرسے سے چھٹی کر کے احمد کے ساتھ نٹ کا تماشا دیکھنا یہ سب اس کے شوق تھے ،جنھیں حالات کی تنگی کے سبب وہ پورا نہیں کر سکتا تھا ۔ اپنے شوق کے کاموں کو پورا کرنے ……وہ اتنا حساس بچہ ہے کہ ناول میں نصرت اس کو والد کے ناراض ہونے پر اس کو دور کے مدرسے میں بجھوانے کا کہتی ہے تو اس کے ذہن میں مدرسے سے بھاگ کر فلموں میں ہیرو بننے کا خیال آتا ہے ۔
محسن خان کا پورا ناول بچے کی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے لیکن اس کی منفرد خوبی یہ ہے کہ ناول نگار نے غریب گھرانے کے بچے کی نفسیاتی کیفیت کو اپنے عہد کے سیاسی ، سماجی ، معاشرتی اور مذ ہبی مسائل کے ساتھ یوں منسلک کیا ہے کہ یہ ناول اکیسویں صدی میں انسانیت کے مختلف روپ دیکھاتا ہے ۔جیساکہ ناول میں تین نسوانی کردار ہیں ،جو مختلف طبقات کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔پہلا کردار ‘جبران ‘ کی والدہ کا ہے ، جو اللہ پر یقین کامل رکھتے ہوئے قناعت پسندی کی قائل ہے اور اپنے خاوند کے تبلغ پر چلے جانے کے بعد فاقہ کشی میں زندگی گزارنے کو اللہ کی رضا سمجھتی ہے ، اسی فاقہ کشی اور مناسب علاج کی سہولیات نہ ملنے پر قبر کی آغوش میں ابدی نیند سو جاتی ہے ۔ دوسرا کردار ” رخسانہ خالہ کا ہے ، جو اجلے کپڑے پہن کر اور میک اپ کر کے گھر سے نکلتی تھی ، جس کے متعلق ” جبران کا والد ولید یہ کہتا تھا کہ ایسی عورتیں اپنے لباس اور ظاہری نمود و نمائش کے سبب ہی قیامت کے روز جہنم کی آگ میں جلائی جائیں گئی لیکن جب اس کے تبلیغ پر جانے کے بعد اس کی بیمار بیوی ناہید کی مدد کرنے بھاگتی بھاگتی چلی آتی ہے اور ہسپتال لے جاتی ہے بعدازاں جب ہندوستانی گجرات کی پولیس ولید کو پاکستانی ایجنٹ کے شک میں گرفتار کر لیتی ہے ،جس کے سبب پولیس جبران کے گھر اور دکان کی بھرپور تلاشی لیتی ہے ۔ جس کی خبر پورے محلے میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے تو ناہید کے بلانے کے باوجود رخسانہ کا دیر سے پہنچنا بھی قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ یہاں انسانیت کے کتنے روپ عیاں ہوں گے ۔ اسی طرح تیسرا کردا ر جبران کی چچی کا ہے ۔جس کے گھر آسائش زندگی کی تمام سہولیات ہیں اسی وجہ سے وہ مغرور اور مفاد پرست خاتون ہے ۔ وہ جبران کی والدہ کے مرنے کے بعد انھیں گھر میں رکھنے کی متعمل نہیں ہوتی لیکن خاوند کی ناراضی کے سبب دل پر پتھر رکھ کر پناہ دے دیتی ہے لیکن ایک دن جبران کو رسالے کے ورق پر ننگی لڑکی کی تصویر دیکھتے دیکھ لیتی ہے تو اس کو گھر سے نکال دیتی ہے تو وہ یہاں ہمیں ایک خود غرض عورت کے روپ میں نظر آتی ہے ، جو بچے کی غلطی پر درگزر کر نے پر تیار نہیں ہے ۔ لیکن جب حافی جبران کو واپس چچا کے گھر لے جاتا ہے تو چچی کایہ جملہ کہ’ میرے گھر میں میری بیٹی جوان ہو رہی ہے ‘ قاری کو چچی کے اندر فکر انگیز عورت کا روپ بھی نظر آنے لگتا ہے ،کیونکہ اگر وہ بغض کی بنیاد پر نکالتی تو جبران کی بہن نصرت کو بھی گھر سے نکال دیتی تھی ۔
مصنف نے زندگی کے متوازن رنگ یعنی خوشی وغم کو برابر عیاں کیا ہے ،جب جبران کی والدہ کا انتقال ہوتا ہے تو اس کو قبرستان میں دفنایا جا رہا ہوتا ہے تو قریب ہی ایک بچہ (دانش) کٹی پتنگ کا سرا ڈور کا تکلا لیپٹا ہوا جارہاہوتا ہے ، جو اس بات کی علامت ہے کہ اس کائنات کی خوب صورتی خوشی اور غم سے عبارت ہے ۔ اس قصے کا ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ 8 سے 10 سال کے بچے کو اندازہ نہیں ہوتا کہ والدین کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اس مفاد پرست دنیا میں زیست گزرانا کتنا دشوار ہوتا ہے ۔ اس لیے ہی جبران، دانش کو کٹی ہوئی پتنگ کا سرا اور ڈور کا تکلا لے جاتے دیکھتا ہے تو کہتا ہے :
"اس دن اگر میری ماں کی جگہ دانش کی ماں مری ہوتیں تو وہ پتنگ مجھے مل جاتی ” (7)
2014 ء کے بعد ہندوستان میں سیاسی حوالوں سے کئی تبد یلیاں رونما ہوئیں۔ بی ۔جے پی کی حکومت نے آتے ہی ملک کی بڑی اقلیت مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کےکئی حربے استعمال کیے گئے جس کی بڑی مثال کشمیر کے حوالے سے آئین میں تبدیلی ہے ، موجودہ ہندوستانی دور حکومت میں مسلمانوں کے لیے داڑھی رکھنا ، اسلام کی تبلیغ کرنا جرم بنتا جا رہا ہے کیونکہ ہندوستانی خفیہ ایجنسی را نے تبلیغ کرنے والوں کو پاکستانی ایجنسی کا خفیہ ایجنٹ قرار دے کر سنگین مقدمات میں جیل میں بند کر رہی ہے ۔ ناول میں جبران کا والد ” ولید ” جو اسلام کی تبلیغ کے لیے جاتا ہے لیکن اسے پاکستانی خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ قرار دے کر گجرات جیل میں بند کر دیا جاتا ہے ،جس کے بعد ہندوستانی پولیس جبران کے گھر اور دکان کی تلاشی لیتی ہے بعدازاں سارا محلہ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ناول نگار نے مسلمانوں کی سیاسی بنیادوں پر تذلیل کو کربناک انداز میں بیانیے سے منسلک کیا ہے۔یہ بھی بلواسطہ طور پر متوسط طبقے کا استحصالی رویہ ہے کیو نکہ اگر یہاں اشرافیہ میں سے کوئی تبلیغی جماعت کے ساتھ دین کی تبلیغ کے لیے نکلتا تو اس پر بھی ایجنٹ ہونے الزام لگتا؟
ناول کے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے مصنف نے پرندوں اور جانور کردار بھی تخلیق کیے ہیں جن میں ایک کتا (قطمیر ) کا کردار ہے ، جو وفاداری کی علامت ہے اور تہذیبی اہمیت رکھتا ہے یہاں یہ نوآبادیاتی عہد کی علامت بنا کر پیش کیا گیا کیونکہ جب فرنگیوں کی برصغیر میں آمد ہوئی تھی وہ وہ اپنے ساتھ ایک کتا بھی لائے تھے ، جس کو پالنا اور اس کی نسلوں کو آگے بڑھانا ناگزیر تھا ۔ مصنف نے یہاں کتا کو بطور استعارہ محکوموں میں ایسے افراد کے لیے پیش کیا ہے ،جو اپنے مالک کے وفادار اور غلامانہ سوچ کا عکاس ہے
دوسرا جانوار کردار گدھے کا ہے ، جو ہمارے معاشرے میں سخت محنت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ناول میں جبران بچوں کے ساتھ مل کر گدھے کی دم کے ساتھ پیپا باندھ کر بھگاتے ہیں ،جس کے سبب اس گدھا زخمی ہو جاتا ہے ،یہاں بھی ہمیں بچوں کی نفسیات اور فطرت کا عکس نظر آتا ہے اگر ہم متن کے باطن میں جھانکیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں بھی سرمایہ دارانہ نظام پر طنز کیا ہے کہ جو زیادہ محنت کرتا ہے طاقت وار طبقہ اس پر اتنا ہی زیادہ بوجھ ڈالتا ہے ۔
گدھے کی دم کے سا تھ پیپا باندھ کر بھگانا بچوں کے لیے تو فطری عمل تھا یہ ان کی لیے محض تفریخ کے سوا کچھ نہیں تھا لیکن اس واقعہ کا حافی کو پتہ چلتا ہے تو وہ مدرسہ میں جبران اور خالد کو سزا دیتے ہوئے ان کے اسماگرامی کو تاریخی شخصیات کے ناموں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے طنزیہ رویہ اپناتے ہیں:
” ایک وہ مفکر و عالم خلیل جبران تھے ،جنھوں نے دنیا کو علم کا خزانہ بخشا اور ایک یہ شیطان جبران ہیں جنھیں علم سے اللہ واسطے کا بیر ہے ”
"اور ایک وہ خالد بن ولید تھے جو میدان جنگ میں گھوڑے دوڑا کر منافقین اور مشرقین کی صفیں الٹ دیا کرتے تھے اور یہ خالد ہیں جو گدھوں کی دم میں پیپے باندھ کر انھیں ڈوڑاتے ہیں”(8)
جبران کو جب چچی گھر سے نکال دیتی ہے تو حافی اس کو اپنے مدرسے لے آتا ہے ۔ یہاں محسن خان انسان کو بر آور کرانا چاہتا ہے کہ ہم جہاں سے بھاگتے ہیں حالات ہمیں وہیں لا کھڑا کرتے ہیں ۔ کیونکہ جبران کے پاس بھی حافی کے علاوہ کوئی سہارا نہ تھا ۔ یہاں ہم حافظ کے رویہ میں مثبت تبدیلی دیکھتے ہیں ۔مدرسے لانے پر حافی کا رویہ جبران کے ساتھ بڑا ہمدددانہ ہو جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔ جبران حافی کی بکری چرانے قبرستان لے جاتا ہے جہاں وہ اپنے چچا اور والدہ سے باتیں کرتا رہتا ہے ۔یہاں پر بھی ناول نگار نے بچے کی نفسیات کو بڑی چابکدستی سے بیان کیا ہے ۔ جبران ماں کے قول کی حقیقت کو جاننے کے لیے اللہ میاں کو زور سے پکارتا ہے اور ربِ کائنات سے اپنی فہم کے مطابق سوالات کرتا ہے ۔جس کے جواب میں اللہ تعالی اس کارخانہ ِ ہستی کا مکمل نظام بتاتے ہیں:
"میں نے اللہ میاں سے پوچھا ،”آپ نے میری اماں کو ، چچا جان کو اور قمطیر کو اپنے پاس کیوں بلا لیا؟
اللہ میاں نے کہا،” وہ میری امانتیں تھیں، میں نے انہیں دنیا میں بھیجا تھا اور میں نے بلا لیا ۔ میں جس کو جب چاہتا ہوں دنیا میں بھیج دیتا ہوں اور جب چاہتا ہوں اپنے پاس بلا لیتا ہوں۔دنیا میں رہ کر پریشانیاں ہی تو اٹھاتے۔ جنت میں آرام سے رہ رہے ہیں۔ مزیدار کھانا کھا رہے ہیں۔ عمدہ کپڑے پہن رہے ہیں میں نے تمہاری اماں کو سونے کے کنگن بھی بنوا دیے ہیں تمہارے چچا جان کے لئے ایک لائبریری قائم کر دی ہے اور وہ آرام کرسی پر بیٹھ کر کتابیں پڑھتے رہتے ہیں۔روزانہ صبح کے وقت قطمیر کے ساتھ سیر کو جاتے ہیں خطمیر بھی خوش ہے ہر وقت چلتا رہتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں "قیدی” میں قید بطور استعارہ – ڈاکٹر محمد کامران شہزاد )
"میرےابا کو جیل کیوں بھیجا؟” میں نے پوچھا تو اللہ میاں نے کہا” میری دکھائی ہوئی راہ پر چلنے والوں کو پریشانیاں تو اٹھانی پڑتی ہیں یہ تمہارے ابّا کا امتحان ہے۔ اس میں پاس ہو گئے تو انہیں جنت میں جگہ دے دوں گا وہ بھی تمہاری اماں جان، چچا جان اور قطمیر کی طرح خوب عیش کریں گے ۔”(9)
جبران اور خدا کے اس مکالمے سے واضح ہوتا ہے کہ مصنف اس دنیادار اور بےحس انسان کے سامنے آخرت اور مرنے کے بعد کی حقیقی زندگی کا عکس نمایاں کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ناول کے اختتامی حصے میں حافی مدرسہ چھوڑ کر اپنے گھر واپس جانے کی تیار ی کرتا ہے ،یہاں قاری کو ادراک ہوتا ہےکہ مصنف اس عارضی زندگی میں بے حس افراد کی آنکھیں کھولنا چا ہتا ہے کہ کا ئنات کا نظام صرف اللہ میاں کی مرضی سے ہی چلتا ہے اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ جہاں ہر ایک کے ساتھ انصاف ہو گا ۔
مجموعی حوالے سے محسن خان نے ناول میں فلسفہ زندگی کو بیان کیا ہے ،جو موجودہ دور میں استعماری قوتوں کے زیر اثر ہوتی جا رہی ہے ۔ انسانی اقدار اور روایات دم توڑتی جا رہی ہیں ۔عصر حاضر میں جہاں فکشن لکھنے والے متن کو دلکش بنانے کے لیے تشبہات و استعارات کا سہارا لیتے ہیں ،جو ایک قاری کی فہم سے بالاتر ہوتی ہیں ،جس کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ قاری فن پارے کی صحیح تفہیم کرنے سے عاری رہتاہے لیکن محسن خان نے بچوں کی نفسیات ،فطرت اور عارضی زندگی کی حقیقتوں کو تشبہات و استعارات کا استعمال نہ کرتے ہوئےرواں سادہ بیانیے کے ذریعے ناول کے قلب میں ڈھال دیا ، کہیں کہیں علامات کا سہارا لیا لیکن وہ علامات اتنی مبہم نہیں کہ قاری کی سمجھ سے بالاتر ہوں اور یہی اس ناول کی کامیابی کا سبب ہے ۔
حوالہ جات
1 ۔علی رفاد فتیحی ،”احجاج کی خاموش آواز ” مشمولہ اردو چینل ، جلد :40، سہ ماہی (مدیر:ڈاکٹر قمر صدیقی )،بمبئی،ص: 153
2 ۔ محسن خان ، اللہ میاں کا کارخانہ ” لاہور، عکس پبلی کیشنز ،2021ء، ص: 12
3 ۔ ایضاً،ص: 17
4 ۔ ایضاً،ص: 30
5۔ایضاً،ص: 73،74
6۔ایضاً،ص: 84
7۔ایضاً،ص: 167
8۔ایضاً،ص: 108
9۔ایضاً،ص: 261
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |