میرے خیال سے ادب میں صرف دانشوری کا زہر ہی نہیں حماقت کا تریاق بھی ہونا چاہیے۔ ادب کو اس قدر افیونی ہونا چاہیے کہ قارئین کا مختلف طبقہ مجبوراًہی سہی ہر قسم کے ادب کو زہر مار کرسکے۔ لہٰذا ابن صفی نے اپنی تحریروں کے بارے میں بجا فرمایا ہے:
’’جاسوسی ناول پڑھنے والوں کو جب کوئی نیا ناول نہیں ملتا تو ادب العالیہ بھی پڑھ لیتے ہیں۔ لہٰذا ادب العالیہ پیش کرنے والوں کو مجھ پر خار نہ کھانا چاہیے۔انھیں تو مجھ پر پیار آنا چاہیے کہ ادب العالیہ کی رسائی عوام تک کرانے کا سہرا بھی میرے ہی سر ہے۔‘‘ (ابنِ صفی ’بقلم خود‘، قومی زبان، حیدر آباد، اگست-ستمبر ۲۰۱۱)
ایک کے بعد ایک کئی ناول پڑھتا گیا اور بہتیرے تو ایسے ہیں جن کو کئی بار پڑھا۔ ذہن بار بار سوال کرتا تھا کہ کیا وجہ ہے جو ابنِ صفی کو بڑا ادیب یا اہم ادیب سمجھنے میں ہچکچاہٹ محسوس کی گئی۔ کیا موضوعات کی بنا پر ہی کوئی ادیب اچھا یا اہم ہوسکتا ہے؟ میرا خیال ہے ابنِ صفی بحث سے باہر اس لیے رہے کہ وہ ایک ایسے عہد میں لکھ رہے تھے جب موضوع ہی ادب کا معیار تھا۔ اور شاید جنس ایسا موضوع تھا جس پر دانشوری کے علم سب سے زیادہ لہراتے تھے۔ اسی لیے ابنِ صفی نے ایک جگہ فریدی کے ذریعہ اظہار کیا ہے:
’’میں جنسیت کو ایک سیدھا سادا مسئلہ سمجھتا ہوں جسے آدمی جیسے سمجھ دار جانور کے لیے اتنا پیچیدہ نہ ہونا چاہیے کہ وہ شاعری کرنے لگے!‘‘ (جنگل کی آگ، جاسوسی ادب، ج:۲۲، ص: ۷۶)
اسی لیے وہ محض مقبول ہو کر رہ گئے، ادب اور شاعری پر سنجیدہ رائے دینے والے اور اپنی فکر کا اظہار کرنے والے ادیب کا محض مقبول رہ جانا بذاتِ خود ایک سانحہ ہے۔ ابنِ صفی کا قلم ایک معجزہ تھا جس سے نکلنے والی نواے سروش آج بھی اپنے قاریوں کو مبہوت کردیتی ہے۔ اردو تنقید اور نام نہاد؍تقلیدی دانشوری کی روایت نے اپنے تحفظات و تعصبات کی بقا کے لیے ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کا حق ادا نہیں کیا اس کے باوجود حالات مایوس کن نہیں ہیں۔ کیوں کہ ابن صفی کو محمد حسن عسکری ایسا صاحبِ ذوق اور ادب فہم قاری میسر تھا۔ جن کی تربیت اور فیضان سے ادب میں بہت سے مشہور نام ہوئے اور خود کو عسکری صاحب کا کاسہ لیس کہا۔ قومی زبان، حیدرآباد، اگست-ستمبر ۲۰۱۱ کے صفحہ ۸۱ پر ابوالخیر کشفی کا کہا ہوا لکھا ہے:
’’میں نے انھیں ]حسن عسکری[ابن صفی کی دو تین ناولیں پڑھنے کو دیں۔ اور پھر معاملہ یہ ہوا کہ وہ ہر مہینے پوچھتے ’’خیر صاحب نیا ناول آیا۔‘‘
ڈاکٹر خالد جاوید کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’’کہانی موت اور آخری بدیسی زبان‘‘ میں ایک مضمون ’’ابنِ صفی__چند معروضات‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ یہ مضمون ابنِ صفی پر لکھی گئی سنجیدہ تحریروں میں سے ایک ہے۔ ڈاکٹر خالد جاوید نے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سسپنس یعنی کہ تجسس ابنِ صفی کے ناولوں کی مقبولیت کا سبب ہو ہی نہیں سکتا۔ بلاشبہ جاسوسی سے وابستہ تصورِ تجسس ابنِ صفی کے یہاں بہت ہی کم پایا جاتا ہے۔ البتہ ادبی اصطلاح کے طور پر مستعمل تجسس اور سریت ابنِ صفی کے ناولوں میں اکمل ہیں لیکن یہ مقصود نہیں ہیں۔ ابنِ صفی تو بس داستان گو کی طرح کہانی سناتے ہیں اور منظر دکھاتے ہیں۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ زیبِ داستان کے لیے کہاں سنانا ہے اور کہاں دکھانا ہے اور کس طرح؟ ابنِ صفی کی کہانیوں کی مقبولیت کے اسباب تلاش کیے جائیں تو ان کے کردار ایک اہم سبب ٹھہریں گے۔ ابنِ صفی کے کردار دو طرح کے ہیں ایک تو وہ جو مستقل ہیں اور ان میں منفی اور مثبت دونوں طرح کے کردار شامل ہیں۔ دوسرے وہ جو کسی خاص ناول میں ہوتے ہیں اور جن کی وجہ سے کہانی وجود میں آتی ہے۔ مستقل کرداروں کی موجودگی کے باوجود بعض دفعہ یہ کردار قاری کے ذہن پر اپنی انمٹ چھاپ چھوڑتے ہیں۔ میں اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ لافانی کرداروں کی تخلیق کے باوجود ابنِ صفی کا سارا زور واقعے اور بیانیہ پر ہوتا ہے۔ ابنِ صفی کے بیانیہ پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک تاروں بھرا سما ہے جہاں کرداروں کی کہکشاں آباد ہے۔ ستارے ٹوٹتے ہیں بعض اپنے نقوش ثبت کرجاتے ہیں اور بعض مندمل ہوجاتے ہیں۔
عمران کی شوخ طبیعت اسے خشک باور نہیں کراتی لیکن صنف مخالف کے تعلق سے دیکھا جائے تو وہ بھی کافی حد تک ’’بدھو‘‘ نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے دو سوئیس لڑکیوں یعنی جولیانا فٹز واٹر اور لسلی کی گفتگو ملاحظہ کیجیے:
’’جہنم میں جائے!‘‘ لسلی پیر پٹخ کر بولی۔ ’’اس میں رکھا ہی کیا ہے۔ ہم نے دو راتیں اس ہٹ میں اجنبیوں کی طرح بسر کی ہیں۔ مجھے تو وہ خود بھی عورت معلوم ہوتا ہے!‘‘
جولیا نے قہقہہ لگایا۔
’’خاموش رہو!‘‘ لسلی بپھر گئی۔
’’وہ یورپین مردوں کی طرح کتا نہیں ہے!‘‘ جولیا نے لسلی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔‘‘
(ادھورا آدمی، ج: ۴۱، ص: ۱۲۳)
لسلی کا عمران کے بارے میں یہ خیال ظاہر کرنا کہ ’’مجھے تو وہ خود بھی عورت معلوم ہوتا ہے‘‘ اور جولیا کا جواباً یہ کہنا کہ ’’وہ یورپین مردوں کی طرح کتا نہیں ہے!‘‘ محض ایک لڑکی کی جھنجھلاہٹ اور دوسری کا فخر بے جا نہیں ہے۔ دونوں لڑکیوں نے عمران کو جتنا پہچانا اتنے کا اظہار ہے، یہ بات بھی طے ہے کہ کسی بھی لڑکی کے مقابلے میں عمران کو سب سے زیادہ جاننے والی لڑکی جولیا ہے (سواے روشی اور تھریسیا کے)۔ شاید اس بات کا فیصلہ کرنا آسان لگے کہ عمران کا کردار ابن صفی کے ہاتھوں کٹھ پتلی کی طرح حرکت کرتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے عمران ایسے کردار بات بات پر پھٹ نہیں پڑتے، ان کے ذہن و دل کی کشمکش قدم قدم پر ظاہر نہیں ہوتی۔ اپنی محرومیوں پر دبیز پردے ڈال رکھتے ہیں، چوں کہ انسان ہی ہیں لہٰذا کبھی نہ کبھی وہ لمحہ بھی آتا ہے جب ان کی دلی کیفیت زبان سے پھوٹ ہی پڑتی ہے۔ ایسے لمحوں میں ان کے دن رات کے سنگی ساتھی بھی متحیر رہ جاتے ہیں۔ مثلاً
’’وہ ]زینو[ آہستہ آہستہ بڑھی تھی اور عمران کی پیشانی کو بوسہ دے کر یکلخت واپسی کے لیے مڑ گئی تھی…
۰۰۰ ہاں … اس وقت میری پیشانی پر تقدس اور خلوص کے پھول کھل رہے ہیں۔ کاش ثریا ]عمران کی بہن[ نے بھی کبھی اس طرح میری پیشانی کو بوسہ دیا ہوتا!‘‘
جوزف متحیرانہ انداز میں اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔‘‘ (کالی کہکشاں، ج: ۵۴، ص: ۷۴)
ماشائ اللہ!! کیا پاکیزہ خیالات ہیں۔ یہ جملہ طنزاً اور مخلصاً دونوں طرح سے کہا جاسکتا ہے۔ سرسری طور پر محسوس بھی یہی ہوتا ہے کہ درج بالا اقتباس کے بارے میں انھیں دو رویوں کا اظہار ہوسکتا ہے۔ لیکن عمران کے گھریلو حالات اور اس کی پرورش کو مدنظر رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ انسان اس لڑکی کی تلاش بعد میں کرتا ہے جس سے جنسی خواہشات کی تسکین ہوسکے۔ انسان کو پہلے ان عورتوں کی اور ان کی محبت کی تلاش ہوتی ہے جنھیں وہ ماں اور بہن کے طور پر جانتا ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ اس کے برعکس رویے کا حامل انسان نفسیاتی طور پر بیمار اور مجرمانہ ذہنیت کا حامل ہوتا ہے۔ عمران اپنے بچپن، گھر اور اہلِ خانہ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں ابنِ صفی -ایک عظیم مفکر ،بے مثل ادیب(حصہ 1) – عبداللہ زکریا )
ابن صفی کا کمال یہی ہے کہ انھوں نے اپنے کرداروں کی پیچیدگی کو تھال میں سجا کر پروسا نہیں اس لیے وہ بظاہر اکہرے معلوم پڑتے ہیں۔ عمران سے روشی، جولیا اور تھریسیا کا جو رشتہ ہے اس کی عقدہ کشائی اور تجزیے کے لیے جو غور و فکر درکار ہے اسے پیدا کرنے والا مصنف معمولی یا محض مقبول نہیں ہوسکتا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، ایکس ٹو کے تئیں جولیا کی لگاوٹ کو بھی انگیز کرنا آسان نہیں جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ عمران ہی ایکس ٹو ہے۔ یہ بات جولیا کے علم میں نہیں، اسے کون بتائے، جولیا کو معلوم ہوجائے تو وہ کیا کرے گی، اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی؟ اور آگے بڑھتے ہیں، عمران اور اس کے والد رحمان کے بیچ رشتوں کی جو نوعیت ہے وہ بھی کم پیچیدہ نہیں۔ یہی وہ اشارہ ہے جو عمران کی شخصیت کو مزید الجھاتا ہے اور بقول ابن صفی یہ شخصیت ’’چوں چوں کا مربہ‘‘ ہے۔ابن صفی نے بارہا علم نفسیات اور ماہرِ نفسیات قسم کے لوگوں کا مذاق اڑایا ہے لیکن خود ابن صفی کو نفسیات سے گہرا شغف ہے ان کے بیشتر کرداروں کی پیچیدگی نفسیات کے مرکزے میں ہی کھلتی ہے:
مسٹر علی عمران ایم ایس سی۔ پی ایچ ڈی ۔ آکسن کی نفسیاتی توجیہہ ابھی تشنہ ہے۔ آخر کیوں عمران شادی اور خانہ آبادی کو وبال سمجھتا ہے۔ نہ عمران کوئی غیر ذمہ دار شخص ہے اور نہ ہی اس کے والد شرابی، جواری یا اہلِ خانہ کے لیے بے مہر۔ عمران سانچے میں ڈھلا ہوا محض جاسوس نہیں ہے۔ وہ ایک بیٹا ہے اور بھائی بھی ہے۔ اس کی بہن اور ماں اس کے لیے ایسے ہی فکر مند رہتی ہیں جیسے کوئی عام مشرقی عورت۔ مسٹر رحمان ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز بظاہر سخت گیر باپ ہیں لیکن ان کا ٹوٹنا اور بار بار ٹوٹنا لائقِ توجہ ہے۔ عمران کی فطرت ان کے اس رویے کا سبب ہے ہر باپ کی طرح انھیں بھی اپنے بیٹے کے لیے باعزت اور روشن مستقبل کی فکر ہے۔ عمران رحمان صاحب کا اکلوتا بیٹا ہے۔ رحمان صاحب نے اسے کوٹھی سے نکلوا دیا ہے۔ اس کی صورت سے بیزار ہیں۔ ابن صفی نے ایک آفیسر کی سخت گیری کو دکھایا ہے لیکن وہ آفیسر ایک باپ ہے یہ بھی نہیں بھولے:
’’اب یہی دیکھیے نا اگر سی آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل کے صاحبزادے انھی کی قیام گاہ پر کسی درندے کا شکار ہوجائے تو پورے ملک میں کیسی سنسنی پھیلے گی!‘‘
’’نہیں نہیں … یہ کیا بکواس ہے!‘‘ رحمان صاحب مضطربانہ انداز میں بولے۔‘‘ (تصویر کی موت، ج: ۳۸، ص: ۴۴)
’’کیوں کھیل بگاڑیں گے۔ پہلے بھی کبھی آپ کو ایسے معاملات میں میری طرف سے کوئی شکایت ہوئی ہے؟‘‘
’’بکواس مت کرو میری آنکھوں کے سامنے تم تنہا کسی خطرے میں نہیں پڑسکتے؟‘‘ (ایضاً)
’’رحمان صاحب نے صاف دیکھا تھا کتے نے عمران کی گردن ہی دبوچی تھی اور پھر غراتا ہوافرش پر ڈھیر ہوگیا تھا۔ عمران نے ریوالور میز پر رکھ دیا۔ رحمان صاحب ہکا بکا کھڑے تھے۔ دفعتہ دیوانوں کی طرح عمران کی طرف جھپٹے اور کھینچ کر سینے سے لگا لیا۔ اُن کے منہ سے ہلکی ہلکی سسکیاں نکل رہی تھیں۔‘‘ (ایضاً، ص: ۴۵)
دوسری طرف عمران کے عمل سے معلوم پڑتا ہے کہ اوٹ پٹانگ حرکتیں رحمان صاحب کو زچ کرنے کے لیے ہے۔ بسا اوقات وہ ایک بدزبان بیٹے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بے چارہ اپنی عادت سے مجبور ہے شاید۔ مثلاً عمران اور رحمان صاحب کے درمیان ایک مکالمہ ملاحظہ کیجیے:
’’نہیں اب تم پھاٹک میں بھی قدم نہیں رکھو گے!‘‘
’’پھاٹک!‘‘ عمران کچھ سوچتا ہوا بڑبڑانے لگا۔ ’’چار دیواری … تو کافی اونچی ہے۔‘‘
’’وہ خاموش ہوگیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد بولا۔ ’’نہیں جناب! پھاٹک میں قدم رکھے بغیر تو کوٹھی میں داخل ہونا مشکل ہے!‘‘ (جہنم کی رقاصہ، ج: ۷، ص: ۹)
عمران کی بہن ’ثریا‘ عمران سے چھوٹی ہونے کے باوجود عمران کی نالائقیوں پر طنزوتعریض کرتی رہتی ہے۔ ثریا عمران سے نالاں رہتی ہے کیوں کہ وہ اپنے ماں باپ کو دن رات عمران کی وجہ سے کڑھتے ہوئے دیکھتی رہتی ہے اور خود اس کی بھی یہی کیفیت ہے۔ لیکن جب رحمان صاحب سختی برتتے ہیں تو وہی ثریا، رحمان صاحب کو عمران کے سدھرنے کا یقین دلاتی ہے تا کہ اس کا بھائی کوٹھی میں نہ سہی شہر میں تو رہے۔ عمران کی والدہ، ثریا، رحمان صاحب اور چچازاد بہنوں کی فکر مندی کا سب سے نمایاں اظہار ناول ’’دلچسپ حادثہ‘‘ میں ہوا ہے۔ ’مسز پھٹاکیا‘ کے ہاتھوں چوٹ کھا کر عمران یادداشت کھوجانے کا ڈھونگ رچاتا ہے۔ اس ناول میں عمران بڑا ستم ظریف معلوم ہوتا ہے۔ یہ سماں کتنا ارضی، گھریلو اور مشرقی زندگی کی حقیقت سے کس قدر قریب ہوتا ہے اس کا اندازہ پڑھنے والے ہی کرسکتے ہیں۔ اس کی اہمیت اور معنویت کا ادراک اس وقت ہوگا جب ابنِ صفی کو جاسوسی ادب کی کلیات میں دیکھا جائے۔
ابنِ صفی کے کرداروں کا اندرونی تضاد اور ان کے ذہن و دل میں جو کشمکش جاری رہتی ہے اس کی وجہ سے ہم انھیں سپر ہیرو اور سپر ہیرو کے نواح میں نہیں شمار کرپاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کرداروں سے قاری کا حسی سطح پر ایک خاص قسم کا جذباتی رشتہ استوار ہوتا ہے۔ اب جولیا ہی کو لیجے ایک طرف وہ ایکس ٹو کے خواب دیکھتی ہے تو دوسری طرف عمران سے چِڑھتی بھی ہے۔ لیکن جب عمران خطرے میں ہو تو کسی مشرقی محبوبہ (غالباً) کی طرح تڑپتی بھی ہے۔ عمران سے کسی لڑکی کا قرب بھی برداشت نہیں کرسکتی، اس معاملے میں یہی رویہ روشی کا بھی ہے حتیٰ کے تھریسیا بھی جو کہ مجرموں کے ایک عالمی گروہ کی سرغنہ ہے، جس کا تعلق زیرو لینڈ سے ہے۔
یہ وہ عمران ہے جو حماقت کو بڑی سنجیدگی سے برتنے کا عادی ہے۔ جب کہ سنجیدگی اس کے نزدیک ایک حماقت ہے:
’’سنجیدگی بجاے خود ایک بہت بڑی حماقت ہے۔ تم خواہ کتنی ہی شدت سے سنجیدہ کیوں نہ ہو جائو۔ زمین و آسمان اپنی جگہ پر رہیں گے۔‘‘ (ایضاً، ص: ۱۱)
عمران اور خطرناک مجرم ’سنگ ہی‘ کے درمیان تعلقات کی نوعیت بھی عجیب ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی گرفت میں آتے ہیں پھر کچھ ایسا ہوتا ہے کہ چھوٹ بھی جاتے ہیں۔ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ ایسا قسمت سے ہوتا ہے یا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ ابن صفی نے ان کے تعلقات کو ’چچا بھتیجا‘ کا نام دیا ہے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ ابن صفی کو عمران سیریز اور فریدی – حمید سیریز علاحدہ علاحدہ لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ میرے خیال سے یہ ان کی طباعی اور ملک کی تقسیم کا تقاضا تھا۔ جرم اور قانون کا مشترک موضوع ہونے کے باوجود دونوں سیریز کی فضا اور کردار بہت حد تک مختلف ہیں۔ عمران کا تعلق محکمۂ خارجہ سے ہے اور فریدی سیکرٹ سروس کا انسپکٹر، دونوں کے ملک بھی الگ ہیں۔ دونوں ہی اپنا کام ذریعۂ معاش کے لیے نہیں کرتے۔ عمران اپنے محکمے کا اعلیٰ عہدیدار ہے جب کہ فریدی کے اوپر چند اور بڑے عہدے متعین ہیں۔ فریدی پرموشن کا بھی خواہاں نہیں اس نے اپنی تربیت کچھ اس انداز سے کی ہے کہ فرض ادا کرنے والی ایک مشین بن کر رہ گیا ہے۔ چند ناولوں کو چھوڑ کرعمران ’اردو کا جیمس بانڈ‘ ہے۔ عمران ایک ایجنٹ کی طرح ہے۔ ابنِ صفی نے فریدی کو عظیم سراغ رساں کے طور پر پیش کیا ہے جو شرلاک ہومز کا بھی مذاق اڑاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پلاٹ انگریزی ناولوں سے لینے کے باوجود قصہ اور کردار پر ابنِ صفی کا دعویٰ ہے۔ عمران سیریز کے ناولوں میں تو انگریزی پلاٹ والے ناول مشکل ہی سے ملیں گے۔
ابنِ صفی مستقل کرداروں کی موجودگی سے قاری کو اس وہم میں مبتلا کردیتے ہیں کہ ان کی کہانیاں مستقل کرداروں کے اردگرد طواف کرتی ہیں اور مستقل کردار ہی ان کہانیوں کا اساس ہیں۔ جس نے ابن صفی کے طویل بیانیوں کا نصف مطالعہ بھی کیا ہو اس قاری پر بھی یہ روشن ہوجاتا ہے کہ عمران، فریدی اور حمید ایسے، مستقل کردار تو محض تماشائی ہیں۔ انسان اور زندگی کے بہروپ انھیں بھی متحیر کردیتے ہیں۔ یہ تو شہرِ پریشاں کے ایسے شاہد ہیں جن کے ذریعے اس آشوب کا اظہار ہوتا ہے جس میں بیشتر افراد مبتلا ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں ابن صفی کی کہانی ’’شکرال کی جنگ‘‘ ایک نثری رزمیہ – ڈاکٹر سلمان فیصل )
یہ کردار قاری کو وہ دنیا دکھاتے ہیں جس میں مذہب اور مذہبی لوگ ماند ہیں اور ساحری، سامری، جعل سازی اور مکروہ روباہیت کی عنان سائنس اور فلسفے کے ہاتھ میں ہے۔ جن کے ہاتھوں میں زندگی ایک ایسے کرب میں مبتلا ہے جس کا احساس تک نہیں ہوپاتا۔
ابنِ صفی مضبوط قوت ارادی کے مالک مستقل کرداروں کو کہانی کے اختتام تک ایسے تاریک اور مہیب سناٹے میں کھڑا کردیتے ہیں جس کی دھمک حساس قاری اپنے دل پر محسوس کرتا ہے۔ ایسے موقعوں پر ابنِ صفی کردار کو کھول کر معاشرے کو ننگا کردیتے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |