اکیسویں صدی کو اردو افسانہ کی صدی کہا جارہا ہے۔ اس صدی میں فکشن لکھنے کا رجحان پھر سے بڑھا ہے۔ اکیسویں صدی کا ایک دہائی سے بھی زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے اگر اس سترہ سالہ افسانوی ادب پر نگاہ ڈالیں تو ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوگا۔ اکیسویں صدی کے افسانہ نگاروں نے ایک بار پھر کہانی کا رشتہ عام قارئین سے جوڑا ہے۔ اس نئی صدی مین نئے لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ ساتھ پرانے لکھنے والوں نے بھی نئے موضوعات اور نئے انداز سے افسانے لکھے ہیں اور لکھ رہے ہیں۔
اردو افسانہ اپنی ایک صدی اور ایک دہائی سے زیادہ کے اس سفر میں مختلف تحریکوں اور رجحانات سے وابستہ رہا ہے ۔ جنہیں ہم رومانی تحریک، ترقی پسند تحریک ،جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے نام سے جانتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کا تعلق جہاں عوام سے رہا وہیں جدید افسانہ نگاروں نے فرد کے داخلی کرب کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ جدید افسانہ علامتی اور تجریدی نوعیت کا افسانہ رہا جہاں بیانیہ کا عنصر افسانہ سے غائب رہا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا رشتہ کہانیوں سے کٹتا چلا گیا لیکن اکیسویں صدی میں ایک بار پھر کہانیوں کی واپسی ہوئی ہے پھر سے بیانیہ افسانہ لکھے جانے لگے اور گمشدہ قاری کی واپسی ہونے لگی۔ (یہ بھی پڑھیں "قیدی” میں قید بطور استعارہ – ڈاکٹر محمد کامران شہزاد )
اکیسویں صدی میں اردو افسانہ آج ایک نئی منزل سے ہم آغوش ہے۔ اس کی دنیا بہت وسیع ہو چکی ہے۔اس صدی کے افسانوی ادب میں نئے رجحانات اور نئے موضوعات بڑی تیزی سے شامل ہورے ہیں۔ اس صدی کا افسانہ پہلے کے افسانوں سے کافی مختلف ہے ۔ آج کا افسانہ نگار زندگی کے مختلف پہلوؤں کو کمال ہشیاری سے واشگاف کرنا چاہتا ہے۔ کہانی کا یہ نیا منظر نئے فلسفوں اور نئے حقائق کی تلاش میں سرگرداں ہے جس میں کمپیوٹر، سوپر کمپیوٹر، سائبر اسپیس ، اسمارٹ فون، گوگل ، واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کا تصور کلیدی صورت اختیار کر گیا ہے۔ جہاں اس صدی کے اردو افسانہ نگاروں کے لئے نئے نئے موضوعات کے اسباب ہیں تو وہیں دوسری طرف بھوک، افلاس، پانی ، آلودگی ، دہشت گردی ، پرانی قدروں کا انحطا ط ، نئی تہذیب اور مصنوعی کلچر، لسانی ،مذہبی اور مسلکی تعصب، نئی اور پرانی نسل کا ذہنی تصادم، بے روزگاری، ماحولیاتی کثافت، سماجی اور سیاسی استحصال وغیرہ ان کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
سید محمد اشرف سے لے کر نورین علی تک کے افسانوں میں نئی صدی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ نئی صدی کے ان سترہ سالوں میں اردو افسانے کا نہ صرف مزاج بدلا ہے بلکہ ان افسانوں میں تکنیک ، اُسلوب اور انداز بیاں کے اعتبار سے کافی تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔اکیسویں صدی کے افسانہ نگاروں پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو زیادہ تر وہی افسانہ نگار ملیں گے جنہوں نے اپنا افسانوی سفر بیسویں صدی میں شروع کیا تھا۔ اس دور کے نامور افسانہ نگاروں اور ان کے افسانوں میں سید محمد اشرف(ڈار سے بچھڑے)، انور قمر (کابلی والا کی واپسی)، علی امام نقوی(ڈونگڑ واڑی کے گدھ)، نیر مسعود (پاک ناموں والا پتھر)، اقبال مجید(سوئیوں والی بی بی)، سلام بن رزاق(انجام کار)، شوکت حیات (گھونسلہ)، انیس رفیع(گداگر سرائے)، فیروز عابد(سب کچھ اندر ہے)،حسین الحق (مور پاؤں)، نورلحسنین(فقط بیان تک)، عبدالصمد (آگ کے اندر راکھ)،،حمید سہروردی(شہر کی انگلیاں خونچکاں)، طارق چھتاری(لکیر)، مشرف عالم ذوقی(نفرت کے دنوں میں)، یسین احمد(دھار)، مشتاق احمد نوری(ایک ذرا سی بات)، ف س اعجاز(پلوٹو کی موت)، صادقہ نواب سحر (ادھرا ہوا فراک)، ساجد رشید(کٹے ہوئے ہاتھ)، عابد سہیل(غلام گردش)، ترنم ریاض(میرا رخت سفر)، پیغام آفاقی (ڈائن)، غضنفر(حکمت)، بیگ احساس (دَخمہ)، شموئل احمد(گھر واپسی)،معین الدین جینا بڑے(رنگ ماسٹر)، احمد صغیر(درمیان کوئی تو ہے)، رتن سنگھ (اور وہ جی اٹھا)، مظہر الزماں خاں (پہلے دن کی تلاش میں)، مشتاق اعظمی (نارسیدہ)، اظہارالسلام(کانچ کا پُل)، م۔ناگ(لٹکی ہوئی عورت)، رشید امجد(ایک عام آدمی کا خواب)، منشا یاد(کہانی کی رات)، مسعود الشعر(اکیسویں صدی کی یہی کہانی)، زاہدہ حنا(تنہائی کا چاہ باہل)، امراؤ طارق(بن کے رہے گا)، اصف فرخی (مرنا ایک بار ہوتا)، احمد جاوید(گمشدہ شہر کی داستان)، محمد حمید شاہد (آدمی کا بکھراؤ)، محمد عاصم بٹ(گڈھے کھودنے والا)، نعیم بیگ(آخری معرکہ)، محمد حامد سراج (یونین کونسل)، ابرار مجیب (رات کا منظر نامہ)، سید احمد قادری(وقت کا بہتا دریا)، رحمان عباس(چار ہزار برسوں کا بھید)، صغیر رحمانی (داڑھی)، اقبال حسن آزاد(روح)، ذکیہ مشہدی(بھیڑیے بھی سیکولیر تھے)، شائستہ فاخری (اداس لمحوں کی خود کلامی)، خالد جاوید (آخری دعوت)، اسلم جمشید پوری(عید گاہ سے واپسی)، خورشید حیات(پہاڑ ندی عورت)، شاہد اختر (نو لکھا ہار)، اسرار گاندھی(راستہ بند ہیں)، افشاں ملک(یاجوج ماجوج)، غزال ضیغم(سوریہ ونشی چندر ونشی)، صدیق عالم (مرے ہوئے آدمی کی لالٹین)، مشتاق انجم(چھلاوا)، محمد بشیر مالیرکوٹلوی(ماضی کی وادیاں)، شہیرہ مسرور(نسلوں کی کیل میں ٹنگا رشتہ)، تبسم فاطمہ (حجاب)، انیس البنی(بھرت راج)، شبیر احمد(میں اور میرا باس)،ڈاکٹر اختر آزاد(رئیلیٹی شو)، سلیم سرفراز(بدعا کرنے والا)احمد رشید(پرندہ پکڑنے والا)، پرویز شہریار(شہر نوشیرواں کا ایک یادگار محرم)، اشتیاق سعید(فرنگی)، سلمٰی جیلانی (سسکیاں)، ڈاکٹر نگار عظیم(ایک زندہ کہانی)، ریاض دانش (جو اماں ملی۔۔۔)، ارشد نیاز(گھر آنگن سیلاب)، جاوید نہال حشمی(کرچیاں)، علی اکبر ناطق(الٰہ دین کی چارپائی)، وحید قمر (ستاروں سے آگے ) ر نورین علی حق(خالی بوتل میں اُبال) اور محمدجمیل اختر (خواب گذشتہ) وغیر ہ اہم ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں مابعد جدید افسانہ اور محمد حامد سراج – ڈاکٹر شہناز رحمٰن )
مذکرورہ بالا افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں ایک طرف ترقی پسندی کی یک رخی حقیقت نگاری سے گریز کیا تو دوسری طرف جدید یت کی ابہام اور تجریدیت سے بھی اپنے دامن کو بچائے رکھا۔
اس نئی صدی کے افسانہ نگاروں میں سید محمد اشرف کے افسانے قومی اور بین الاقوامی حادثات اور اثرات کے عکاس معلوم ہوتے ہیں۔ اور خاص طرز فکر کا احساس دلاتے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کا شمار اس صدی کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔مشرف عالم ذوقی کے افسانہ نگاری کی سماجی، ثقافتی اور سیاسی بصیرت تیز ہے جو ان کے افسانوں میں بصارت کا کام کر جاتی ہے۔مشرف عالم ذوقی جہاں اپنے افسانوں میں علامتوں کا استعمال کرتے ہیں وہی ان کے افسانوں میں خوبصورت بیانیہ اور فنٹسی کا استعمال بھی نظر آتا ہے۔ ان کی نظر ہمیشہ حالات حاضرہ پر رہتی ہے وہ سلگتے ہوئے موضوع کو اپنے افسانے کا حصہ بناتے ہیں ’’صدی کو الوادع کہتے ہوئے‘‘ اور ’’نفرت کے دنوں میں ان کے بہترین افسانے ہیں۔
طارق چھتاری بھی اس عہد کے اہم افسانہ نگار ہیں ۔ ان کے افسانے حقیقت، اشاریت اور تجریدیت کے اشتراک سے وجود میں آتے ہیں۔پورٹریٹ، دس بیگھے کھیت اور چابیاں ان کے عمدہ افسانے ہیں۔
رشید امجد اس صدی کے افسانہ نگاروں میں اپنا ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں عام آدمی کی بے کیف زندگی اور اس کے چھوٹے چھوٹے مسائل بار بار نظر آتے ہیں۔ ’’ایک عام آدمی کا خواب‘‘ اور’’ رات‘‘ ان کے اہم افسانے ہیں۔ جہاں ایک عام شہری اپنی اور اپنی نسل کا مستقبل خوشحال بنانا چاہتا ہے۔
انیس رفیع اور فیروز عابد بھی اس صدی کے اہم افسانہ نگار ہیں۔ حال ہی میں انیس رفیع کا افسانوی مجموعہ ’’گداگر سرائے‘‘ منظر عام پر آیا ہے۔ افسانہ گداگر سرائے میں مشہور سیاح ابن بطوطہ کے ذریعہ ہمارے نئے معاشرے میں عورتوں کی مظلومیت کا قصہ سنایا ہے۔ انیس رفیع کے ایک اور افسانہ ’’اللہ دین لیمپ اور عطر کی بیٹی‘‘ میں جو منظر ابھرتا ہے وہ کلکتہ شہر کے سب سے بڑی مسجد میں عید کی نماز کا ہے۔ مرکزی کردار کو انتظار ہے خطبے کے ختم ہونے کا۔ دوسری شفٹ میں ہونے والی نماز کا ۔ نمازی اپنی جگہ بنانے کے لیے اس کو ہٹاتاہے اور یہی سے راوی کو اپنا گھر، اپنا گاؤں ، اپنی قدریں یاد آتی ہیں اور وہ ماضی کی بازگشت کا سہارا لیتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں صوفیہ شیریں کا افسانہ ’’کہیں پھر تو نہیں‘‘کا تجزیاتی مطالعہ – ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی )
فیروز عابدبھی اس صدی کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں ۔ان کے کئی افسانے مختلف رسائل میں شائع ہوچکے ہیں ۔ بستی کی ایک اداس صبح، سب کچھ اندر ہے، احتساب اور صیقل اس صدی کے ان کے کچھ اہم افسانے ہیں۔ فیروز عابد کی کہانیوں میں بنگال کو مرکزیت حاصل ہے’’سب کچھ اندر ہے ‘‘ اور ’’بستی کی ایک اداس صبح‘‘ میں اس کی عکاسی بھر پور نظر آتی ہے۔فیروز عابد مسائل کی نہ تو تلاش کرتے ہیں نہ جستجو صبح سے شام کی بھاگ دوڑ میں اتنے مسائل ہیں جو عام آدمی کی نظر سے کٹ کر نکل جاتے ہیں فیروز عابد ایسے ہی منظر ناموں کو وقیع بنا دیتے ہیں اس لئے اس مہانگر کولکاتا میں ہر سانس ایک مسئلہ ہے ۔ اسی لئے انہوں نے اپنے زیادہ تر افسانوں میں کلکتے کی زندگی کے اس پہلو کو پیش کیا ہے جو ہمارے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔
بیگ احساس بھی اس صدی کے ایک منفرد افسانہ نگار ہیں ۔ افسانہ’’ دَخمہ ‘‘ نئے موضوع پر لکھا گیا ایک عمدہ افسانہ ہے۔ دخمہ پارسیوں کے قبرستان کو کہا جاتا ہے۔ مرنے کے بعد دخمہ میں کیا ہوتا ہے افسانہ نگار نے اسے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اکیسویں صدی کے خواتین افسانہ نگاروں کی بات کریں تو ذکیہ مشہدی، ترنم ریاض اور صادقہ نواب سحرکا نام کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ذکیہ مشہدی خوب افسانے لکھ رہی ہیں۔ وہ افسانہ کہنے کے فن یاآرٹ سے اچھی طر ح واقف ہیں ۔ ’بھیٹر یے بھی سیکولر تھے ‘فرقہ وارانہ فساد کے موضوع پر لکھا گیا ان کا ایک بہترین افسانہ ہے۔ ان کی بیشتر کہانیوں میں تسلسل اس طرح قائم رہتا ہے کہ قاری کہانی کا ہاتھ پکڑ کر کے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ترنم ریاض کا افسانہ ’’میر ارخت سفر‘‘ مظلوموں کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔ترنم ریاض کے افسانوں کو پڑھنے کے بعد قاری مضطرب اور بے چین ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔صادقہ نواب سحر بھی اس صدی کی ایک اہم افسانہ نگار ہیں۔ وہ عصری حالات و مسائل سے بخوبی واقف ہیں اور ان مسائل کو افسانوی پیرائے میں بیان کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ وہ اپنے ہر افسانے میں عورت کی کسی نہ کسی مسائل کو پیش کرتی ہیں۔ ’خلش بے نام سی‘ کے کردار اپنی مٹی سے جنم لیتے ہیں جن کی جڑیں ہندوستانی تہذیب میں پیوست ہیں۔ ہندوستانی معاشرت کی بہترین عکا سی ان کے افسانوں کی خصوصیت ہیں۔
وہیں شائسنہ فاخری، تبسم فاطمہ اور افشاں ملک کی کہانیاں دیکھیں تو اس صدی کے نئے سماج اور معاشرے کی بدلی ہوئی عورتیں ملیں گی۔
صدیق عالم کا نام اردو افسانے میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔ ان کا منفرد اُسلوب ہی ان کی پہچان ہے۔ ’’مرے ہوئے آدمی کی لالٹین‘‘ ان کے چند نمائندہ افسانوں میں شمار ہونے والا افسانہ ہے۔ حمید سہرروردی، نو رالحسنین، یسین احمد ، خالد جاوید، مرزا حامد بیگ، مظہرالزماں خان، احمد صغیر ، اسلم جمشید پوری، نعیم بیگ، صغیر رحمانی، خورشید حیات، شبیر احمد،رحمان عباس ، علی اکبر ناطق ، اختر آزاد وغیرہ کی اس صدی کے افسانہ نگاروں میں اپنی ایک شناخت ہے اور نئے موضوعات پر ان گی گرفت بہت مضبوط ہوتی ہے۔
اس نئی صدی کے افسانہ نگاروں اور ان کے لکھے گئے افسانوں کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ نئی صدی کے افسانہ نگار نے زمانے کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر افسانہ تخلیق کر رہے ہیں۔
اکیسویں صدی آئی ٹی اور سوشل میڈیا کی صدی ہے۔ اس صدی میں اردو افسانہ کی ترقی و ترویج میں سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپ بھی اپنا کلیدی رول ادا کر رہے ہیں۔ جس میں فیس بک پر عالمی افسانہ فورم، انہماک اور سخنور گروپ بہت اہم اور فال ہیں۔ ہر سال عالمی افسانہ فورم ایک عالمی افسانہ نشست کا اہتمام کرتا ہے۔ جہاں دنیا بھر کے نئے اور پرانے افسانہ نگار اپنی تخلیقات پیش کرتے ہیں اور ان افسانوں پر کھل کر تبصرہ بھی کیا جاتا ہے۔جسے دنیا بھر کے مختلف ویب سائٹس پر شائع بھی کیا جاتا ہے۔ اس نشست کا مقصد افسانے کی ترویج اور اشاعت اور افسانہ نگاروں کو عالمی سطح پر ایک دوسرے سے اور عام قارئین سے متعارف کرانا ہے ۔ اس نشست میں سنئیر افسانہ نگاروں کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کو بھی بھر پور نمائندگی دی جاتی ہے۔
ان دنوں سخنور گروپ پر بھی عالمی افسانہ نشست کا اہتمام کیا جارہا ہے جہاں دنیا بھر میں موجود افسانہ نگارمختلف موضوعات پر اپنا تازہ افسانہ پیش کر رہے ہیں اور ان افسانوں پرکھلے رائے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح انہماک گروپ نے افسانہ نگار سید تحسین گیلانی کی زیر قیادت اور دوسرے افسانوں نگاروں کی مدد سے اردو ادب کو افسانے کی ایک نئی صنف مائکرو فکشن سے روشناس کرایا ہے جہاں مائکرو فکشن کی اشاعت بھی ہو رہی ہے اور اس نئی صنف کے خدو خال پر کھل کر بات چیت بھی ہو رہی ہے اس گروپ کے ذریعہ اب تک مختلف موضوعات پر نئے اور پرانے افسانہ نگاروں کے ذریعہ ہزاروں مائکرو فکشن پیش کئے جا چکے ہیں ۔ حال ہی میں رسالہ ’’ ندائے گل‘‘ نے مائکرو فکشن پر ایک خصوصی نمبر بھی شائع کیا تھا ۔ جو کافی مقبول رہا۔
اکیسویں صدی کا افسانہ نگار اپنے عصری ماحول اور منظر نامے سے اچھی طرح واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی کا افسانہ موجودہ سیاسی، سماجی و ثقافتی منظر نامے کی ایک تصویر ہے۔آج کا افسانہ نگار اپنے افسانوں کے ذریعے پوری طر ح سے اپنے قاری سے جڑا ہواہے۔عالمی سطح پر جو تبدیلیاں ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں ان تمام تر تبدیلیوں کو اکیسویں صدی کے افسانوں میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اکیسویں صدی کے افسانوی ادب کا سب سے بڑا مسئلہ نئے لکھنے والوں کی کمی ہے ۔نورعین علی حق، محمد جمیل اختر، قرب عباس ، سبین علی وغیرہ اس صدی کے وہ افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اپنا افسانوی سفر اس نئی صدی میں ہی شروع کیا ہے ۔نور عین علی حق خوب افسانے لکھ رہے ہیں اور ان کے افسانے ملک اور بیرون ملک کے معتبر رسالوں میں شائع بھی ہو رہے ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں فیروز عابد…… اردو افسانے کا ایک معتبر نام – اصغر شمیم )
اگر ہم کہیں کہ ہمارا عہد کہانیوں کے لئے زرخیز ہی نہیں معتبر بھی ہے تو غلط نہیں ہوگا اکیسویں صدی میں اردو افسانہ ایک نئے روشن عہد کی تعمیر کر رہا ہے جس میں زندگی بھی ہے اور شکستہ حالات سے آنکھ ملانے کا حوصلہ بھی ہے۔ تیز رفتار زندگی سے آج کا افسانہ نگار پورے طور سے آگاہ ہے۔ وہ اس تیز رفتار زندگی کو اپنی کہانیوں میں فلسفی بن کر نہیں بلکہ عام انسان بن کر محسوس کرتا ہے اور اسے نہایت خلوص کے ساتھ پیش کر دیتا ہے۔
اردو ادب کے معروف فکشن رائٹر انتظار حسین کے ایک پیغام پرمیں اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا جو انہوں نے عالمی افسانہ فورم کے ایک خصوصی انٹرویو میں دیا تھا۔
’’اپنا تجربہ ہونا چاہیے زندگی کا، اور مطالعہ بھی وسیع ہونا چاہیے، بعض لکھنے والوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ اپنی فطری ذہانت اور تجربے پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں اور مطالعہ کو زیادہ وقت اور اہمییت نہیں دیتے ۔ یہ غلط بات ہے جتنا آپ کا مطالعہ وسیع ہوگا اور جتنا آپ کا مطالعہ گہرا ہوگا اتنی ہی آپ کو لکھنے کی اور سوچنے کی صلاحیت کو تقویت ملے گی۔
یہ میڈیا کا زمانہ ہے اور جو فیس بک اور انٹرنیٹ آ گئے ہیں ان پر فوراً شہرت ہو جاتی ہے نام ہو جا تا ہے ۔ لیکن ادب کا ، شاعری کا، ناول کا، افسانے کا معاملہ اس سے مختلف ہے ادب میں آپ کو تحمل کا مظاہر ہ کرنا پڑتا ہے۔ اس زمانے میں جو نئے لکھنے والے اٹھ رہے ہیں ان کے یہاں تحمل اور برادشت نہیں ہے وہ چاہتے ہیں کہ جو لکھا ہے فوراً اس کی قیمت مل جانی چاہیے ۔لیکن ادب کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کرتا ۔ دو قسم کی مثالیں ہوتی ہیں ایک تو یہ کسی نے لکھا اور پہلی ہی تحریر میں اس کی شہرت ہو گئی او ر ایک قسم کے لکھنے والے وہ ہوتے ہیں جو دھیرے دھیرے آہستہ آہستہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیت کے رفتہ رفتہ مراحل طے ہوتے ہیں اور پھر وہ ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جب ان کی قبولیت ہوتی ہے۔۔ تو بعض لکھنے والوں کی قبولیت بہت جلدی ہو جاتی ہے اور بعض لکھنے والوں کی قبولیت بہت دیر میں ہوتی ہے لیکن جن کی دیر سے ہوتی ہے وہ نقصان میں نہیں رہتے انہیں آئندہ چل کر بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔۔۔۔‘‘
اصغر شمیم
کولکاتا، مغربی بنگال
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |