سرزمین ہندوستان تہذیب و ثقافت اور مذہبی رنگارنگی کی وہ مقدس و متبرک دھرتی ہے جس کی مثال پوری دنیامیں کہیں نہیں ملتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان کی خوبصورتی اور ثروت مندی کی وجہ سے اسے درجنوں بار غیرملکیوں نے لوٹا اور اس پر حکومت کی۔ ہندوستان کے حصول کے لیے کئی خوفناک کی جنگیں ہوئیں اور لاکھوں انسان اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ آخر اس ہندوستان میںا یسا کیا ہے جس کے لیے اتنا سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ اگر ہم تاریخ کا بہ نظر غائر مطالعہ کریں گے تو اس سوال کا جواب مل جائے گا۔ یہ دھرتی مختلف مذہب اور اس کے ماننے والوں کی آماجگاہ تو ہے ہی لیکن ان سبھی لوگوں کو ایک جذبہ جو آپس میں باندھے رکھتا ہے وہ ہے ہندوستانیت یا قومیت کا جذبہ۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کی بنیاد پر ہمارا ملک صدیوں سے ہمالیہ کے سائے میں سر اٹھائے کھڑا ہے اور آگے بھی کھڑا رہے گا۔ ہندوستان کے کسی کونے میں چلے جائیں آپ کو وہاں کچھ نہ کچھ ایسا ضرورملے گا جو جس کی کشش آپ کو اپنی جانب متوجہ کرلے گی۔ یہاں کی زندگی، رہن سہن، طرزِ معاشرت، رسم و رواج، مذہبی عقائد، شادی بیاہ، تہوار ،غرض زندگی کے ہر شعبے میں رنگارنگی بھری پڑی ہے۔ غالب نے اسی تناظر میں شاید کہا تھا :
ہندوستان کی بھی عجب سرزمیں ہے
جس میں وفا و مہر و محبت کا ہے وفور
جیسا کہ آفتاب نکلتا ہے مشرق سے
اخلاص کا ہوا ہے اسی ملک سے ظہور
ہے اصل تخم ہند سے اور اس زمین سے
پھیلا ہے سب جہان میں یہ میوہ دور دور
ہندوستان میں کشمیر سے لے کر کنیاکماری تک سینکڑوں تاریخی مقامات ہیں اور ان سب کا اپنا مقام ہے اور اپنی اہمیت ہے۔ تاج محل جہاں محبت کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے وہیں دہلی کا لال قلعہ، جامع مسجد، ہمایوں کا مقبرہ مغل دور کی حسین یادگار ہیں۔ اسی طرح جو دھپور کا قلعہ، اجنتا ایلورہ کی گپھائیں، میسورکا قلعہ، چارمینار، وادی کشمیر، دارجلنگ، سکم، گوا، بودھ گیا، جے پور وغیرہ۔۔۔ غرض ہندوستان کا ہر شہر اپنے اندر کوئی نہ کوئی کشش اور خوبصورتی رکھتا ہے۔ اس طویل فہرست میں اگر لکھنؤ اور بنارس کو نہ شامل کیا جائے تو ہندوستان کی تہذیبی تاریخ ادھوری سمجھی جائے گی۔ اودھ جس کی شامیںا تنی خوبصورت تھیں کہ لوگ مثالیں دیتے تھے اور بنارس جس کی حسین صبح پر پریزاد بھی مرمٹے اور جہاںکے گھاٹوں پر ایک روحانی سکون کے متلاشی جوق در جوق کھنچے چلے جاتے ہیں۔ اس صبح کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہوگی۔ ہمارا ملک ہندوستان آج ایسے ہی اتنی ترقی نہیں کرگیا بلکہ اس کی ترقی میں یہاں کے باسیوں کا ہاتھ رہا ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن نے لکھا ہے ’’ہندوستان کی کئی ہزار سال کی تہذیبی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ ارباب قوت کے جبر و تشدد سے نہیں بلکہ عارفوں کے وجدان سے، فلسفیوں کی فکر سے، زاہدوں کی ریاضت سے اور فنکاروں کے تخیل سے پیدا ہوا ہے‘‘۔
دریائے گومتی کے کنارے بسا لکھنؤ زمانہ قدیم سے ہی اپنی تہذیب و ثقافت کے لیے جانا جاتا ہے۔ شہر لکھنؤ ریاست اودھ کا دارالسلطنت بھی تھا اور علم و ادب کا مرقع بھی۔ نواب برہان الملک نے تحت نشینی کے بعد لکھنؤ سے اپنا دارالحکومت فیض آباد منتقل کرلیا۔ بعد میں نواب آصف الدولہ نے 1775 میں لکھنؤ کو دوبارہ ریاست اودھ کا دارالسلطنت بنایا۔ نواب آصف الدولہ نے لکھنؤ کی ترقی و تعمیر کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور اس کے دور حکومت میں ریاست اودھ نے خوب ترقی کی۔ اس کی کوششوں سے لکھنؤ اودھ میں ایک ثقافتی مرکز کے طور پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوا۔ لکھنؤ کے نواب ایرانی نسل کے تھے اس لیے یہاں کی تہذیب پر ایرانی اثرات واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔1856 میں ریاست اودھ کے ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرانتظام آجانے کے بعد یہاں کی تہذیب و تمدن پر ایک مغربی رنگ چڑھا اور ایرانی و ہندوستانی تہذیب کے ساتھ ساتھ برطانوی تہذیب و ثقافت کے اثرات بھی دکھائی دینے لگے۔ دبستانِ لکھنؤ کو اردو شعر و ادب میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ تہذیب اودھ کے زیراثر تحریر کی گئی داستانوں، ناولوں، افسانوں اور شعری مجموئوں میں قدیم لکھنؤ کی انفرادیت جا بجا نظر آتی ہے۔ یہاں کے رسم و رواج، یہاں کا رہن سہن، یہاں کے میلے ٹھیلے اور یہاں کے محرم اور مختلف تہواروں کا حال پڑھ کر یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اودھ محض تاریخ کا ایک حصہ نہیں رہا ہے بلکہ اودھ نے ہندوستان کی تاریخ میں سنہرے دور کا اضافہ کیا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں حنیف ترین-ایک البیلا شاعر – محمدشرافت علی )
ڈاکٹر اختر بستوی اپنے مضمون فرماں روایان اودھ کے دور میں تہواروں کی مشترکہ تہذیبی نوعیت میں لکھتے ہیں:
’’دیوالی بھی فرمانروایان اودھ کے زمانے میں بڑی رونق اور چہل پہل کا تیوہار ہوا کرتا تھا۔ شہر کی زوردار آرائش کی جاتی تھی۔ لکھنؤ میں سارے بڑے محلے دلہن کی طرح سجائے جاتے تھے۔ لکشمی اور گنیش کی پوجا ہوتی تھی۔ چوک پورا جاتا تھا اور دیوالی بھری جاتی تھی۔ گھر کے آنگن میں مختلف رنگ کے چاول وغیرہ سے خوبصورت نقش و نگار بنانے کو چوک پورنا کہا جاتا تھا… تمام گھروں میں چراغاں ہوتا تھا اور ہر طرف آتش بازیاں چھوٹتی تھیں۔ شام کو ہندو مسلمان خواص و عوام گھر سے نکل کر روشنی دیکھنے جاتے تھے۔ دیوالی کے موقعے پر قماربازی کا رواج عام تھا۔‘‘ (نیا دور لکھنؤ، فروری مارچ 1994)
نواب سعادت خاں برہان الملک، صفدر جنگ، شجاع الدولہ، آصف الدولہ، واجد علی شاہ، بیگم حضرت محل وغیرہ نے ریاست اودھ کو اور یہاں کے باشندوں کو وہ سب کچھ دیا جس نے آج بھی اودھ کو زندہ رکھا ہے اور اودھ کا نام لیتے ہی خوش حالی، خوبصورتی اور ثروت مندی کا ایک ایسا نظارہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے جو اب صرف قصے کہانیوں تک محدود ہے۔اردو کی عظیم داستان رجب علی بیگ سرور کی فسانہ عجائب اودھ کی تہذیب و ثقافت پر ہی مبنی ہے۔ برصغیر میں اردو ناول کی روایت کو مستحکم کرنے میں تین بڑے ناول نگاروں کے نام آتے ہیں جنھوں نے لکھنوی تہذیب کو اپنے ناولوں میں خصوصی جگہ دی۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار، عبدالحلیم شرر اور مرزا محمد ہادی رسوا۔ ان تینوں نے اپنے ناولوں کے ذریعے اودھ کی تہذیب کو اردو داں حلقے میں متعارف کرایا۔ بعد کے برسوں میں قرۃ العین حیدر، شوکت صدیقی اور احسن فاروقی کے لکھنے ناولوں میں بھی پرانا لکھنؤ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے۔ فکشن کے علاوہ اگر شاعری کی بات کی جائے تو اودھ اور لکھنؤ کے ذکر نے اردو شاعری کو ایک وقار اور شناخت عطا کی ہے۔ غزل، نظم، مثنوی، مرثیہ اور قصیدہ غرض ہر صنف میں اودھ کے شاعروں نے اپنی موثر موجودگی درج کرائی ہے اور لکھنؤ کو وہ شان عطا کی ہے جس کا تصور آج محض خوابوں میں ہی ممکن ہے۔یہاں کی زبان کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔اردو ادب کو مرصع و مسجع زبان سے آشنا کرنے کا سہرا بھی لکھنو کو جاتا ہے۔ ادب ہے ہٹ کر اگر بات کی جائے وہاں کی روزمرہ کی زبان میں بھی جو نفاست اور شائستگی تھی وہ کہیں دوسری جگہ نہیں نظر آتی۔
لکھنؤ والوں کی زبان کے حوالے سے عبدالحلیم شرر نے اپنی کتاب گذشتہ لکھنؤ میں لکھا ہے:
’’اردو زبان میں اور خاص لکھنؤ والوں میں مخاطب کے اتنے ہی درجے نہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کے بہت سے الفاظ ہیں جن کا شرفا و معززین کے مقابلوں میں استعمال کرنا لازمی ہے۔ جناب، جنابِ والا، جناب عالی، حضرت، حضرتِ والا، حضور، حضور والا، حضورِ عالی، حضور عالی، قبلہ، قبلہ و کعبہ، سرکار اور اسی قسم کے چند اور الفاظ اردو میں معزز مخاطب کی نسبت حسبِ درجہ استعمال کیے جاتے ہیں جو لکھنؤوالوں کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں اور ان کا صحیح استعمال جس قدر اہلِ لکھنؤ جانتے ہیں اور کسی دوسرے شہر کے لوگ نہیں جانتے۔ ‘‘(ص 369)
لکھنؤ مختلف و متنوع تہذیبی رنگارنگی کا مرقع رہا ہے۔ یہاں کی زندگی ایک مثالی زندگی رہی ہے۔ لکھنؤ جہاں نوابوں کے لیے اور اپنی خوبصورت مرصع زبان کے لیے مشہور رہا ہے وہیں یہاں کی شامیں اپنی رنگینی اور دلفریب نظاروں کے لیے مشہور رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے شام ہوتے ہی غروب آفتاب سے تھوڑا پہلے سے ہی یہاں کے بازاروں میں چہل پہل بڑھ جاتی تھی اور یہاں کی عمارتوں کی بالکونیوں سے خوبصورت اور دلفریب دوشیزائیں اپنے مسحور کن حسن سے ہر آنے جانے والے کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیتی تھیں۔ نوابو ںکے شہر لکھنؤ کے اُس عہد میں ان دوشیزاؤں کی ایک الگ پہچان تھی اور طوائفوں کو بہت مہذبسمجھاجاتا تھا۔ شام میں سڑک کے دونوں اطراف گلاب اور چنبیلی کے پھولوں کے ہار اور گجرے کی دکانیں سج جاتی تھیں۔ قسم قسم کی مٹھائیوں کی خوشبو اور پھولوں کی مہک ساتھ میں عمارتوں سے جھانکتے خوبصورت حسین چہرے، غرض یہ کہ کسی بھی آنے والے کو بیمار کرنے کا سارا سامان فراہم کردیا جاتا تھا کہ وہ پھر لکھنؤ کی پھول والی گلیوں کا ہی اسیر ہوکر رہ جائے۔ ان طوائفوں کے گھر میں اعلیٰ خاندان کے لڑکوں کی تربیت ہوتی تھی۔ ساتھ ہی انھیں نوابوں کے محل میں بھی رکھا جاتا تھا، کچھ طوائفوں کو توانگریز حکمراں اپنے ساتھ برطانیہ بھی لے گئے تھے اور وہاں کی خواتین کو ان طوائفوں نے رقص کی تربیت بھی دی تھی۔ لکھنؤ کی طوائفیں انگریز حکمرانوں اور نوابوں کے محل میں مہمانوں کی خاطر تواضع بھی کرتی تھیں اور ان کے ساتھ رقص وسرور کی محفلیں بھی منعقد کی جاتی تھیں۔ یہ طوائفیں نہ صرف یہ کہ رقص میں ماہر ہوتی تھیں بلکہ ان کی آواز بھی بہت سریلی ہوتی تھی۔ طوائفوں کو اس دور میں نہایت قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اودھ کی رنگینی اور تہذیبی شناخت میں ان طوائفوں کا کردار ناقابل فراموش ہے۔
مرزا جعفر حسین اپنی کتاب قدیم لکھنؤ کی آخری بہار میں لکھتے ہیں:
’’ان تمام خصوصیات سے بڑھ کر طوائفوں کی ایک خاموش لیکن گراں قدر خدمت یہ تھی کہ ان کا اس شہر میں جذباتی ہم آہنگی اور قومی یک جہتی پیدا کرنے میں بہت بڑا حصہ تھا۔ ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ایک رنگ میں ڈوب کر وقت گزارنا، مذہبی قید و بند سے آزاد ہوکر محبت والفت کے میدانوں میں بادہ پیمائی کرنا، تعصب و تنگ نظری سے بچنا اور دور رہنا… روسا و عمائدین کے ساتھ ہم سب سابقہ طوائفوں کے بھی شکر گزار ہیں کہ جن کے چھوڑے ہوئے اثرات کی بدولت ہمارے شہر میں فرقہ وارانہ فسادات کبھی نہیں ہوئے۔
ملک کی تقسیم کے بعد جب شمالی ہندوستان میں بہت سے مقامات پر ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے تو ہمارے شہر میں کسی کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی تھی۔ یہ سب فیض تھا۔ ہمارے بزرگوں کے اخلاق اور ان کی طوائفوں کے اطوار کا۔ (ص 208)
کسی بھی معاشرے کی پہچان اس کی زبان اور رہن سہن سے ہوتی ہے۔ لکھنؤ شمالی ہند میں شعر و ادب کا ایک اہم مرکز تھا۔ تہذیب و تمدن کی ترقی کے لیے معاشرے میں قصہ گوئی اور روایتوں کا اہم رول ہوتا ہے۔ کسی بھی زبان کا ادب ان لوک کہانیوں اور قصوں سے ترقی کرتا ہے۔ لکھنؤ میں بھی قصہ گوئی کی روایت عام تھی۔ منشی نولکشور قابل تعریف ہیں کہ انھوں نے ان داستانوں کو شائع کرکے صدیوں کے لیے محفوظ کردیا۔شاعری کی اگر بات کی جائے تو خواجہ حیدر علی آتش، سودا، میر انیس، دبیر، آرزو، انشا، فیروز، مصحفی، جرأت، رنگین، میر خلیق، دیاشنکر نسیم و امانت لکھنوی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
دہلی کے اجڑنے کے بعد شاعروں اور ادیبوں کو لکھنؤ میں پناہ ملی۔ لکھنؤ کی ثقافت اور قدیم تہذیبی رنگ نے نوابوں کے دور میں جہاں عام انسان کو عیش و عشرت کا سامان فراہم کیا وہیں لوگوں کی معاشی فراغت نے نکموں اور عیش و مستی میں ڈوبے رہنے والوں کی بڑی تعداد پیدا کردی۔ا دھر انگریز گھات لگائے بیٹھے تھے کہ کب مناسب موقع آئے اور وہ اس تاریخی ریاست پر قبضہ حاصل کرلیں۔ لکھنؤ کی عوام رقص و سرور، راگ راگنیوں کے قصے، میلے ٹھیلے، جانوروں کی لڑائیوں اور طوائفوں کے کوٹھے کے سحر میں گرفتار تھی۔ امرا عیش و عشرت میں لگے تھے اور عوام تماش بین تھے۔ بازاری عورتوں کا مرتبہ خاتون خانہ سے زیادہ تھا اور طوائفوں سے رابطے رکھنے والے کو معاشرے میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اب ایسی صورت حال کسی بھی معاشرے کے لیے خطرناک ہوتی ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ جب گناہ اور عیش پرستی بڑھتی ہے تو معاشرے پر زوال آجاتا ہے اور یہی لکھنؤ کے ساتھ بھی ہوا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:
’’اِس معاشرے میں خیال کا ارتقا رک گیا۔ امرد پرستی اور تماشے بازی نئی نئی شکلوں میں ظاہر ہورہی تھی اور سارا کلچر اس نقطے پر سمٹ آیا تھا۔ سستی جذباتیت پرستی، غیرسنجیدگی، پھکڑپن اور ابتذال نے ساری دوسری اقدار کو پس پشت ڈال کر خود مرکزی حیثیت اختیار کرلی تھی۔ اس کی انتہا یہ دیکھیے کہ شجاع الدولہ کے زمانے میں بازاری عورتوں اور ناچنے والے طوائفوں کی شہر میں اس قدر کثرت ہوگئی تھی کہ کوئی گلی کوچہ ان سے خالی نہ تھا۔ نصیرالدین حیدر میں عورتوں میں رہتے رہتے اس درجہ زنانہ مزاجی پیدا ہوگئی تھی کہ عورتوں کی سی باتیں کرتے اور عورتوں ہی کا لباس پہنتے۔ خیال کے ارتقا کے رک جانے کے عمل کو آپ اس زمانے کی شاعری میں بھی دیکھ لیجیے، ہر سطح پر یہ عمل منفی اقدار کی پیدائش کا موجب بن رہا ہے۔ ‘‘ (پاکستانی کلچر: ڈاکٹر جمیل جالبی، 1997، ص 57)
ایسی صورت حال میں یہ تہذیب دھیرے دھیرے زوال پزیر ہونے لگی۔ انگریزوں کا تسلط ہونے کے بعد دربار اور جاگیرداری نظام ختم ہوگیا اور وہ سارے ادارے بند ہونے لگے جو لکھنوی تہذیب کی بنیاد تھے۔ آزادی کے بعد لکھنؤ کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی حالات بالکل ہی تبدیل ہوگئے اور اس طرح یہ تہذیب قصہ پارینہ بن کر رہ گئی لیکن آج بھی قدیم لکھنو کا ذکر ہوتا ہے تو آنکھوں کے سامنے خوابوں کی ایک حسین دنیا کا منظر سامنے آجاتا ہے جو ہندوستان کے سونے کی چڑیا کہلائے جانے کا ضامن تھا۔
اپنے مضمون اودھ کی تہذیب کا عروج و زوال میں انیس انصاری لکھتے ہیں:
’’اودھ کے زوال کے پیچھے انگریزوںکی لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی بھی تھی۔ انیسویں صدی کے آخر میں شیعہ سنی اور دیگر ملک کے لوگوں کے بیچ اختلافات ظاہر ہونے لگے تھے۔ جس کی وجہ سے سماج میں بکھراؤ پیدا ہوا اور اس کے خراب اثرات آج تک دکھائی دیتے ہیں۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مذہب اور دھرم کے کٹرپنتھی رجحان کا اثر ہمارے موجودہ سماج پر بھی پڑرہا ہے تو اسے کیسے روکا جائے۔ لکھنؤ کی تہذیب آپسی بھائی چارے، نفاست، شرافت نفس، وضع داری، فراخ دلی اور انسانیت کے رجحانات سے عبارت تھی۔ اودھ کی تہذیب کا محض یہ پہلو اسے احترام کے لائق بنانے کے لیے کافی ہے۔ (نیا دور، لکھنؤ فروری مارچ 1994)
ہندوؤں کے لیے مقدس شہر بنارس کانام سنتے ہی آنکھوں کے سامنے خوبصورت گھاٹوں اور ڈھیر ساری کشتیوں کی تصویریں ابھرنے لگتی ہیں۔ ساتھ ہی کانوں میں مندر کی گھنٹیوں کی نقرئی آوازیں گونجتی ہیں۔ گنگا کے کنارے بسا یہ شہر تاریخ کے قدیم شہروں میں سے ایک ہے۔ یہاں سینکڑوں کی تعدادمیں مندر ہیں۔ اس لیے اسے مندروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ کبیر داس، بھگت روی داس اور تلسی داس کی یہ دھرتی ان معنوں میں بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہاں رقص و موسیقی علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کو جو عروج حاصل ہوا وہ دوسرے کسی شہر میں نہیں ہوا۔ استاد بسم اللہ خاں، پنڈت روی شنکر، پنڈت ہری پرساد چورسیا، گرجادیوی جیسے عظیم فنکاروں کا شہر بنارس، شیو کی نگری، دیپوں کا دیس اور علم و معرفت کا شہر بھی کہلاتا ہے۔ امریکی مصنف مارک ٹوئن اور چینی سیاح ہیون سانگ نے بھی اپنی تحریروں میں شہر بنارس کے گن گائے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس شہر کو بھگوان شیو نے ہزاروں برس قبل قائم کیا تھا۔ مہابھارت، ویدک اور جینی دور میں بھی یہ شہر موجود تھا۔ ہندوستان میں مغلوں کے آنے کے بعد یہاں کئی بڑے مندروں کی تعمیر کی گئی۔
وکی پیڈیا کے مطابق سولہویں صدی میں مسلم مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں وارانسی میں ہندومت کی ثقافتی سرگرمیوں کو کافی فروغ ملا، اس نے شہر میں شیو اور وشنو کے مندروں کی تعمیر میں بھی سرمایہ کاری کی۔ اِس سلسلے میں مظہر حسن کی مشہور کتاب ’تاریخ بنارس‘ (جلد اوّل 1916) میں بھی یہ تحریر ملتی ہے۔
شاہ اکبر نے خاص توجہ بنارس کے جانب رجوع کی اور ان کے فرمان جاری ہونے کے ساتھ بنارس میں ہنود کے مندر اور پرستش گاہ تعمیر ہونی شروع ہوگئی۔ ہندوؤں کو تیرتھ یاترا کی آزادی حاصل ہونے سے تمام ہندوستان کے دولت مند ہنود اس مقام پرجمع ہوگئے اور اس شہر کی ترقی روزافزوں ہونے لگی۔ مہیشور ناتھ کا مشہور و معروف مندر جس کو شہاب الدین محمد غوری نے مسمار کیا تھا بحکم شاہ اکبر، راجہ مان سنگھ (والی جے پور) نے تیار کرانا شروع کیا اور اختتام کو پہنچایا اسی طور پر دیگر راجگان ہنود نے بھی مکان و مندر تعمیر کرانے شروع کیے۔ (ص 53)
اسی طرح معروف ناقد حقانی القاسمی صاحب شہر بنارس کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں:
’’وارانسی میں بھی ایک رمز ہے، رمز اتصال کہ یہ دو دریاؤں ورن اور اسی کا سنگم ہے اور صرف دریاؤں نہیں بلکہ دو دھاراؤں شیو ازم اور وشنو ازم کا بھی امتزاج ہے۔ مذہبی لسانی امتزاجیت کا مظہر یہ شہر ہندوؤں کے لیے ہی نہیں،جین اور بودھ دھرم کے ماننے والوں کے لیے بھی مقدس ہے کہ بودھ ازم کا نقطہ ا ٓغاز یہی مقام ہے….. اسطوری اور استعاراتی گھاٹوں کا شہر بنارس شکتی پیٹھ بھی ہے۔ یہاں گنگا میں نہانے سے گناہ دھل جاتے ہیںاور روح کو تسکین ملتی ہے۔ یہ ہندوؤں کا شہر نجات ہے۔‘‘ (مضمون بنارس کی تخلیقی صبح)
اب ایسے شہر کی بات کرنی ہو کچھ لکھنا ہو تو بہت سارے نکات کو سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ اِسی بنارس کے لیے استاد بسم اللہ خاں نے کہا تھا کہ ’’پوری دنیامیں کہیںچلے جائیں ہندوستان دکھائی دیتا ہے اور پورے ہندوستان میں کہیں جائیں انھیں صرف بنارس نظر آتا ہے۔‘‘ بنارس صدیوں سے تہذیب و تمدن اور امن و آشتی کا گہوارہ رہا ہے۔یہاں زمانہ قدیم سے ہی ہندو اور مسلم ساتھ رہتے آئے ہیں۔یہ بھی درست ہے کہ فسادات بھی ہوئے ہیں لیکن پھر بھی دونوں قومیں ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں برابر کی شریک رہتی ہیں۔ بنارس کو جہاں ہندوئوں نے ایک مقدس شہر کا درجہ دیا ہے وہیں مسلمانوں نے اقتصادی طور پر اس شہر کو مضبوطی فراہم کی اور بنارس کو بنارسی ساریوں کی وجہ سے ساری دنیا میں پہچان ملی۔ بنارسی ذری ساریوں کے لیے بھی بنارس مشہور رہا ہے۔بنارس کی بات ہو اور یہاں کے پان کا ذکر نہ کیا جائے تو بات ادھوری رہ جائے گی۔ بنارس کا پان بھی ساری دنیا میں مشہور ہے۔ معروف گلوکار کشور کمار نے ـ’’کھئےکےپانبنارسوالا‘‘نغمہگاکربنارسکےپانکواوربھیامرکردیا۔اسگانےکومعروفاداکارامیتابھبچنپرفلمایاگیاہے۔انکےاندازاوررقصنےبھیسبکامنموہلیاتھااوریہگاناآجبھیبہت مقبول ہے۔
بنارس ہے ہی ایسا شہر کہ جو ایک بار یہاں آیاوہ یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ یہاں کی صبح کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہوگی۔ گنگا کی گود سے نکلتے سورج اور گنگا کے متبرک پانی میںا شنان کرتے لوگ، کشتیوں پر خوبصورت نظارے کو قیدکرتے سیلانی، ساتھ میں پرندوں کی سریلی آوازیں اور گھاٹوں پر آرتی اور مندر کی گھنٹیوں کی آواز ایک ایسا مسحور کن نظارہ پیش کرتی ہیں جوہر آنے والے کو اپنے سحر میںگرفتار کرلیں۔ جوش ملسیانی نے صبح بنارس کو رشک نور سے تعبیر کیا تو علی سردارجعفری نے پاکستان سے دوستی کے لیے صبح بنارس کی روشنی لے کرآنے کی بات کہی۔ ایرانی شاعر شیخ علی حزیں کو تو بنارس سے ایسا عشق ہوا وہ آئے تو یہیں کے ہوکر رہ گئے اور ان کا یہ شعرآج بھی بنارس کے پرانے اردو والے بڑے ذوق و شوق سے سناتے ہیں۔
از بنارس نہ روم معبدِ عام است ایں جاں
ہر برہمن پسرے لچھمن و رام است ایں جا
بنارس نے اردو کو آغا حشر کشمیری، مسعود اختر، پریم چند، مولوی مہیش پرشاد، فرخ بنارسی، نذیر بنارسی جیسے تخلیق کار و ناقد عطا کیے۔ اسی طرح ہندی میں بنارس کے ساتھ بھارتیندو ہریش چندر، رام چندر شکل، ہزاری پرساد اور نامورسنگھ جیسے عظیم ادبا کا نام جڑا ہوا ہے۔
بنارس کو سعادت یار خاں رنگین نے شہر طلسمات کہا ہے، تو غالب نے کعبہ ہندوستان کہہ ڈالا۔ اسی طرح صفی لکھنوی، عزیز لکھنوی، سیماب اکبرآبادی، جوش ملیح آبادی، احسان دانش، جانثار اختر، مسعود اختر جمال، خیربہوروی، حکیم نیر واسطی، حفیظ بنارسی، نذیر بنارسی وغیرہ نے بنارس کے حوالے سے خوبصورت شاعری کی ہے۔ صبح بنارس مرتبہ عشرت کرت پوری میں درج ہے کہ ’’بنارس ہر دور میں علم فن، حکمت و معرفت کا مرکز رہا ہے۔ اس خاک سے بہت سے دانشور اٹھے ہیں جنھوں نے اپنے چراغ فکر و نظر سے ہندوستان کو منور کیا ہے۔‘‘ (ص 19)
بنارس کی صبح اتنی حسین ہوتی ہے کہ جب گھاٹوں پر کھڑے لوگ نکلے سورج کی پہلی کرن سے روبرو ہوتے ہیںتو ایسامحسوس ہوتا ہے جیسے گنگا سے دھل کر سورج ساری کائنات پر اپنی روشنی پھیلا رہا ہو۔
جانثار اختر نے صبح بنارس کے لیے کہا تھا:
میرے تخیل پر برسا گئی رس
خدا رکھے تجھے صبح بنارس
اس طرح محشر بدایونی نے اسے پوپی کا کشمیر کہا ہے۔نذیر بنارسی نے اپنے کئی اشعار میں بنارس کا ذکر کیا ہے۔ ان کی ایک نظم گنگا کے کنارے کا یہ بند مجھے بہت پسند ہے جو بنارس کی تہذیب و ثقافت اور یہاں کی صبح کا خوبصورت بیانیہ بھی ہے:
جیسے کہ نذیر ان راتوں پر قدرت بھی کرم فرماتی تھی
بیدار خدا کردیتا تھا آنکھوں میں اگر نیند آتی تھی
مندرمیں گجر بج جاتا تھا مسجد میں اذاں ہوجاتی تھی
جب چاندنی راتوں میں ہم تم گنگا کے کنارے ہوتے تھے
حفیظ بنارسی کا یہ شعر بھی کافی مشہور ہوا تھا:
کہ جینے کا سامان یہیں دیکھتا ہوں
بنارس کی صبح حسیں دیکھتا ہوں
بنارس پر نذیر بنارسی کا یہ شعر بھی یہاں دینا ضروری ہے:
گھاٹ پر مندروں کے سائے میں
بیٹھ کر دور کررہا ہوں تھکان
پاس مندر میں بج رہا ہے گجر
دور مسجد میں ہورہی ہے اذاں
سجدہ وہ بھی بتوں کے جھرمٹ میں
کتنا مضبوط ہے مرا ایمان
معروف ادیب اور شاعر شاد عباسی نے بنارس کی زمین اور یہاں کی گنگا کو ماں سے تشبیہ دی ہے۔
بنارس کی زمین اور یہاں کی گنگا کی مثال ایک ایسی ماں کی ہے جو اپنی آغوش میں آئے کسی بچے سے نفرت نہیں کرتی، وہ سارے بچوں کو اپنے سینے سے لگا کر رکھتی ہے۔ گنگا کے ساحل پر کھڑے ہوکر اگر کوئی اگتے سورج کی پوجا کرتا ہے تو کوئی اس کے کنارے بیٹھ کر وضو بھی کرتا ہے۔ اس کے پانی سے کوئی گرو نانک کے گرو استھل کو پوتر کرتا ہے تو کوئی اس پانی سے یسوع مسیح کے متبرک بائبل کے رکھنے کی جگہ ، اپنے عبادت خانے کو پاک کرتا ہے۔(بحوالہ مدنپورہ کی انصاری برادری۔ص۔28 )
مشرقی تہذیب و تمدن کے دھندلے نقوش اگرکہیں دیکھنے ہوں تو وہ لکھنؤ اور بنارس میںا ٓج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ لکھنؤکی تہذیب و ثقافت پر مسلم حکمرانوں کا غلبہ رہا جبکہ بنارس ہندوؤں کے لیے ہمیشہ سے متبرک اور مقد س شہر رہا ہے لیکن یہاں کی مٹی میں قومی یک جہتی کے عناصر بھی گندھے ملتے ہیں جو ہندو، مسلم، سکھ،عیسائی، میں کوئی تفریق نہیں کرتے اور بنارس کی گنگااپنے پوتر جل سے سب کو شدھ کرنے کا موقع دیتی ہے۔
لالہ مادھو رام جوہر نے لکھا ہے:
رات دن چین ہم اے رشکِ قمر رکھتے ہیں
شام اودھ کی تو بنارس کی سحر رکھتے ہیں
عزیز وارث نے کہا ہے:
ہے صبح بنارس روپ اِس کا تو شام اودھ گیسو اُس کے
وہ میری غزل ہے میری غزل تم میری غزل کی بات کرو
انوارالحسن انوار نے لکھا ہے :
یہ اودھ ہے کہ جہاں شام کبھی ختم نہیں
وہ بنارس ہے جہاں روز سحر ہوتی ہے
غرض یہ کہ ہندوستان کی خوبصورتی اسی رنگارنگی میں پنہاں ہے۔ اسی خوبصورتی اور تہذیبی یگانگت نے آرٹ، موسیقی، رقص، تعمیرات اور علم و ادب کو بیش بہا خزانے دیے ہیں۔ اودھ کی شام اور بنارس کی صبح صدیوں سے مشہور رہی ہے جہاں اودھ کی شام کا تصور اب پہلے جیسا نہیں رہا وہیں بنارس کی صبح آج ہزاروں برسوں کے بعد بھی ویسی ہی ہے اور آج بھی اس صبح کی خوبصورتی میں کمی نہیںآئی ہے۔ اِس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ بنارس صدیوں سے ایسا ہی ہے اور مختلف سائنسی ترقی اور مال کلچر کے آنے کے بعد بھی یہ نہیں بدلا اور شاید آنے والے برسوں میں بھی بنارس کی صبح کا حسین منظر اور یہاں کا تہذیبی و ثقافتی تنوع قائم رہے گا۔ہماری تہذیب و ثقافت ہی ہماری شناخت ہے اور اسی کے لیے ہمارا ملک ساری دنیا میں مشہور ہے۔
٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |