اللہ برزگ و برتر نے جب سے کائنات کو تخلیق کیا ۔اس کائنات میں جس بھی انسا ن نے قدم رکھا وہ فلسفہ جبر و تقدیر کا پا بند رہا۔علاو ازیں وہ سماجی ،مذہبی ، ثقافتی پابندیوں کا بھی قیدی رہا ۔کبھی تو انسان ان پابندیوں سے سمجھوتہ کر کے زیست گزارتا ہےتو کبھی ان پابندیوں کے بندھن کو توڑ کر معاشرے کی نظر میں باغی بن جاتا ہے ۔معا شرتییا مذہبی پا بندیوں کو اُردو ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں مختلف انداز میں مو ضوع ِ بحث بنایا ہے ۔تخلیق کا ر معاشرے کا حساس ترین فرد ہوتا ہے ،جو قید میں جکڑی انسانی زندگی کے مسائل کو قلم کی طاقت سے عام قاری کے مطالعہ میں لاتا ہے ۔ہمارے ملک کے باشندے بھی خدا کی عطا کردہ زندگی کو خوب صورت بنانے کے جتن کرتے ہیں اور ایک ایسی آزاد زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم تمام پابندیوں سے ماورا ہوں لیکن یہ سب فانوس خیال سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ (یہ بھی پڑھیں مابعد جدید افسانہ اور محمد حامد سراج – ڈاکٹر شہناز رحمٰن )
ہر معاشرے کا ادیب طبقہ ان سماجی پابندیوں کو عمیق مشاہدے سے اپنے فن پاروں میں بیانیے کا حصہ بناتا ہے ۔ ایسے ہی عصرِ حاضر کے نوجوان تخلیق کار "حمزہ حسن شیخ "ہیں جنھوں نے اپنے دوسرے افسانوی مجموعے "قیدی”میں لکھے افسانوں میں ان پابندیوں کو قلم بند کرتے ہوئے کہیں کہیں احتجاجی رویہ بھی اپنایا ہے ۔ 16 افسانوں پر مشتمل”قیدی ” ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے ،جو کہ فکشن ہاؤس لاہور سے شائع ہوا۔ مصنف نے اپنے پیش لفظ میں اپنے افسانوں کے موضوعات کی طرف علامتی انداز میں اشارہ کر دیا ہے پیش لفظ کی چند سطور ملاحظہ کیجیے :
"ہم سب قیدی ہیں ۔۔۔
پیارو محبت کے قیدی ۔۔۔
روشنی و تاریکی کے قیدی ۔۔۔
رشتوں اور بندھنوں کے قیدی ۔۔۔
سلاخوں اور زنجیروں کے قیدی۔۔۔
خواہش اور خوابوں کے قیدی ۔۔۔
بھوک او رپیاس کے قیدی ۔۔۔۔
دولت و غربت کے قیدی۔۔۔
زندگی و موت کے قیدی۔۔۔”
کتاب میں شامل افسانوں میں دہشت گردی جیسی ناسورکے نیتجے میں انسانی المیوں کے علاوہ عہدحاضر کے ملکی حالات،سماجی مسائل ،طبقاتی تقسیم جیسے موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے ۔پہلا افسانہ "خود کشی ” کے عنوان سے ہے ،جس میں علامتی بیانیہ اپناتے ہوئے فلسفہ جبر کو بیان کیا ہے ،کہانی کے متکلم قبرستان کے کیڑے ہیں ۔جن کے جاندار اور معنی خیز مکالموں سے انسان اس دنیا میں انسان کو فلسفہ جبر کا قیدی دیکھایا ہے ، جہاں وہ بے اختیار ہے ،جہاں وہ موت کے آگے بے بس ہے ۔”مردوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ” افسانے کا یہ جملہ موضوع کی وضاحت کےساتھ انسانی جبر کا عکاس ہے ۔ موجودہ عہد میں جہاں انسان معاشی بدحالی کے سبب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں تو دوسری طرف انسان اجل کی قید کے پابند بھی ہیں ۔
چونکہ مصنف آج کل ملائیشا میں مقیم ہیں اس لیے انھوں نے ملائیشن سماج اور پاکستانی معاشرے کے افتراق کو اپنے مشاہدے سے بیان کیا ہے۔ افسانہ ” باغی” اپنے عنوان میں ہی وسعت اور معنی کا جہاں رکھے ہوئے ہے ۔ اس افسانے میں پاکستانی معاشرے کا فرد جدید دور میں بھی قدیم رسومات کا قیدی دیکھایا گیا ہے ۔ یہاں انسانی آ زادی سلب ہے ،جب بھی وہ اپنی مرضی سے کوئی قدم اٹھانے کی سعی کرتا ہے تو اس کے پاؤں میں سماجی اقدار کی بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں ۔ (یہ بھی پڑھیں صوفیہ شیریں کا افسانہ ’’کہیں پھر تو نہیں‘‘کا تجزیاتی مطالعہ – ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی )
"یہاں زندگی روایات اور قدیم رسومات میں قید تھی اور انسانی زندگی کو سولی پر لٹکا دیا گیا تھا”
ہم جس معاشرے کے باسی ہیں وہاں مذہب کو بنیادی حیثیت حاصل ہے لیکن مذہب کے نام نہاد ٹھیکداروں اور جعلی پیری مریدی نے شعور سے عاری عوام کو حقیقی زندگی سے اتنا دور کر دیا ہے کہ اگر معاشرے کو کوئی فرد کسی ذاتی عناد کی بنیاد پر قتل کر تاہے تو جائل طبقے نے اس کو مذہب سے جوڑ کر سنسار کرنے کی کہیں کوششیں کی گئی ہیں ۔حمزہ حسن نے ان فرسودہ خیالات کے حامی افراد کی سوچ پر بھی آواز بلند کی ہے ۔افسانہ "باغی "میں جدید ٹیکنالوجی کے عہد میں انسان کو اپنی قدیم رسومات اور مذہبی جایلت کا قیدی بننے پر طنز کیا ہے ۔
مشرقی سماج میں عورت کو جہاں اپنے والد ،بھائی اور خاوند کے سائے میں محفوظ سمجھا جاتا ہے ۔ موجودہ ترقی یافتہ اور باشعور مشرقی گھرانوں کی خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق نہیں ملتے اس کے باوجود وہ اپنے والد ،بھائی اور خاوند کو ہی محافظ سمجھتی ہیں۔اگروہ معاشرتی ، مذہبی اقدار کا انہدام کر کے مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھانا چاہتی ہے تو اس کی راہ میں سب سے پہلے اس کا بھائی ہی مزاحم بن جاتا ہے ،۔مصنف نے مذہبی اور معاشرتی پابندیوں جکٹری عورت کی قید پر بھی احتجاج بلند کیا ہے ۔
اللہ نے تمام انسانوں کو مساوی حقوق کے ساتھ ایک جیسا پیدا کیا ۔لیکن سرمایہ داری نظام نے انسانوں کو طبقات میں تقسیم کر دیا ،جس کے سبب مو جودہ عہد کا انسان غربت کی قید میں زیست گزارنے پر مجبور ہے ۔ مصنف نے ” قیدی” میں جیل میں قیدیوں کی طبقاتی تقسیم سے معاشرتی المیہ پراحتجاج کیا ہے ۔ کہ جیل جہاں سب قیدی یکساں ہوتے ہیں ۔ان کے درمیان صرف جرم کی نوعیت مختلف ہوتی ہے ۔ افسانہ نگار کے عمیق مشاہدہ نے جیل میں بھی طبقاتی تقسیم کے سبب غریب قیدی کی زندگی کا چراغ بجھتا کمال ہنر مندی سے دیکھایا ہے۔ کہ یہاں جرم کی دنیا میں مجرم اپنی غر بت کے باعث ایک قید کاٹ رہ ہے اور مقتدر طبقہ جیل میں بھی جب چاہے اس کی جان تک لے سکتا ہے ۔ افسانے میں جیل کو دنیا کے لیے بطور استعارہ استعمال کیا ہے کیونکہ اس کائنات میں بھی انسان کی آمد مختصر وقت کے لیے ہوتی ہے اور جیل میں بھی ہر شخص سزا کاٹ کر جیل کو خیرباد کہتاہے ۔
” بیری کے درخت” میں افسانہ نگار نے ان بزرگوں اور نوجوانوں کے جریشن گیپ کو زیرِ موضوع بنایا ہے ۔قاری کو مطالعہ سے ادراک ہوتا ہے کہ آج کا بزرگ اپنی تہذیب ،قدیم رسومات سے جڑا ہونے کی و جہ سے اپنی روایات کا قیدی ہے ۔ایک ایسی قید جس وہ نکلنا بھی نہیں چاہتا ہے تو دوسری طرف نوجوان طبقہ جو اس مادی ترقی کو ہی حقیقی زندگی کا عکس سمجھتا ہے وہ اس کی قید سے بھی نہیں نکلنا چاہتا ہے ۔ اس افسانے میں حمزہ نے فنکارانہ انداز سے بیری کے درخت جو کہ آج کل ناپید ہوتے جا رہے ہیں مٹتی ہوئی تہذیب کا استعارہ بنا کر پیش کیاہے ،جس کے قیدی ہمارا بزرگ طبقہ ہے ۔ (یہ بھی پڑھیں اقبال حسن آزاد کی افسانہ نگاری – پروفیسر اسلم جمشید پوری )
مختصر یہ کہ جہاں حمزہ حسن شیخ کے افسانے موجودہ عہد کے سیاسی ،معاشرتی ،نفسیاتی مسائل کا عکاس ہیں وہاں ہی افسانہ نگار نے قید کے استعارےکو معنوی سطح یوں برتا ہے کہ قاری کے سامنے ایک ایک افسانے کی کئی کئی پرتیں کھلتی ہیں ۔اسی بنیاد پر حمزہ حسن شیخ کو عہد حاضر کے علامتی افسانہ نگاروںمیں شمار کیا جا سکتا ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |